مشاعرے میں سامعین بہتر اشعار سے لطف اندوز ہوئے اور داد و تحسین سے شاعروں کو نوازا۔
اس سے قبل جشن بہار کی روح رواں کامنا پرساد نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور کہا کہ 'اردو گاندھی وادی ہے، محبت کی زبان ہے، امن واتحاد کی بات کرتی ہے۔ مذہبوں کو زبان درکار ہے لیکن زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔'
مشاعرے میں دہلی کے نائب وزیراعلی منیش سسودیا نے کہا کہ 'ایسے بہارکے موسم میں مشاعرہ کرنا بڑی بہادری کی بات ہے۔ ان کا اشارہ اقتصادی بحران کی طرف تھا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'دہلی جیسے ہندوستان کا دارالحکومت ہے ویسے ہی اردو کا بھی دارالحکومت ہے۔ اردوئے معلی بھی یہیں سے ہے اور اردوبازار بھی یہیں ہے۔'
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پہلی خاتون وائس چانسلر محترمہ نجمہ اختر نے ادبی جشن میں بحیثیت مہمان ذی وقار شرکت کرتے ہوئے کہا کہ 'جشن بہار مشاعرہ ہمارے مشترکہ ثقافتی ورثے کا جشن ہے۔ اردو اپنے آغاز سے ہی ہندوستان کی سیکولر اقدار کی حفاظت کررہی ہے۔'
مشاعرے کو کامیاب بنانے والے ممتاز شعرا و شاعرات میں بیرون ملک واشنگٹن سے ڈاکٹر عبداللہ، ہیوسٹن سے ڈاکٹرنوشہ اسرار، دوحہ قطرسے عزیز نبیل اور ابوظہبی سے سیدسروش آصف، جب کہ ملک ہندوستان سے پروفیسر وسیم بریلوی، ڈاکٹر نصرت مہدی، اقبال اشہر، عقیل نعمانی، پروفیسر مینو بخشی، لیاقت جعفری، پروین کیف، ڈاکٹر نزہت انجم، عبدالرحمن منصور، مدن موہن دانش، اظہراقبال، ندیم شاد اور ناظم مشاعرہ آلوک شریواستوقابل ذکر ہیں۔
میرٹھ سے تعلق رکھنے والے شاعر اظہر اقبال نے بڑی خوبصورتی سے پڑھا۔
'جنوں کم ہے تومجھ سے شاعری کم ہو رہی ہے
تمہیں پاکر میری دیوانگی کم ہو رہی ہے'
اس کے بعد آلوک شری واستو نے دہلی کی روایتی شاعری کو بنارس تک لے گئے اور خوبصورت اشعار پڑھے۔
ابوظہبی سے آئے سید سروش آصف نے پڑھا۔
'مجھ میں کوئی مجھ ساہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
یا پھر کوئی اور چھپا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
مشاعرے میں بزرگ شاعر پروفیسر بریلوی نے پروقاری شاعری کرتے ہوئے کہا
'ٹھوکروں کو بھی نہیں ہوتی ہراک سر کی تلاش
کسے آتا ہے سجدہ کرنا دعاوں کے ساتھ'
-پروفیسروسیم بریلوی
معمولی سے اک بشرہو تم عبداللہ
دنیا کے جھگڑے تم سے کیسے نپٹیں گے
اس لیے تم میری مانو
اپنے کام سے کام رکھو اور چادر اوڑھ کے لمبی تانو!
-ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ