ملک کی شمال مشرقی ریاست آسام میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہاں کی بی جے پی حکومت نے جلد ہی سرکاری امداد یافتہ مدارس کو بند کرنے کا فیصلہ کر کے یقینی طور پر اکثریتی طبقے کو متحد کرنے کی کوشش کی ہے۔ آسام حکومت کا تازہ فیصلہ سیاسی نفع ونقصان کو دھیان میں رکھ کر کیا گیا ہے، کیونکہ چند ماہ بعد ہی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔
اس تعلق سے قومی دارالحکومت دہلی میں قومی اقلیتی مونیٹرنگ کمیٹی کے سابق رکن نوید حامد سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے بات کی جس میں انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر حکومت کا پیسہ کسی بھی مذہبی تعلیم کے لیے خرچ کرنا درست نہیں ہے، حالانکہ بھارت میں مدرسہ نظامیہ کی تاریخ 800 برس پرانی ہے اور ایسے بہت ہی کم مدارس ہیں جہاں حکومتی امداد دی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ' چونکہ آئندہ برس آسام میں انتخابات ہیں اس لیے اس معاملہ کو مزید طول دیا جا رہا ہے، انہوں نے بتایا کہ وہ شروع سے ہی مدارس کے الحاق کے خلاف تھے لیکن کچھ لوگوں کی وجہ سے آج پورے مدرسہ نظامیہ کی ساکھ پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔