دراالحکومت دہلی کی شاہی جامع مسجد 1857 کے بعد پہلی بار سنسان نظر آ رہی ہےکیونکہ ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہے اور لوگوں کو گھروں میں نماز ادا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
رمضان میں دہلی کی شاہی جامع مسجد کی رونق مغل بادشاہ شاہجہاں نے اس مسجد کو 1656 میں تعمیر کرایا تھا، جہاں رمضان کی رونق دکھائی دیتی تھی۔ آج وہاں صرف سناٹا پسرا ہوا ہے۔
رمضان کے دوران جامع مسجد کی ایک پرانی تصیر گزشتہ برسوں میں اس مسجد کی تصویر کیسی تھی آج ہم آپ کو ان تصویروں سے رو برو کرائیں گے جو آج کی تصویر سے بالکل مختلف ہے۔
رمضان میں جامع مسجد سے لی گئی باہر کی ایک پرانی تصیر افطار کے وقت لوگوں کا شاہی جامع مسجد میں جمع ہونا اور ایک ساتھ افطار کرنا ہر سال کا معمول تھا۔ نہ صرف دہلی سے بلکہ دوسرے مقامات سے بھی لوگ جامع مسجد میں افطار کرنے اور نماز ادا کرنے پہنچتے تھے۔ جامع مسجد میں افطار کا خصوصی انتظام ہوتا تھا۔
جامع مسجد میں باہر سے آئے تاجروں کی بھی کافی بھیڑ ہوتی تھی جو ملک کے مختلف مقامات سے اپنی تجارت کے سلسلے میں دہلی پہنچتے تھے۔
اس کے علاوہ مقامی لوگ اپنے گھروں سے تیار شدہ افطاری لاکر بھی مسجد میں افطار کرتے اور نماز ادا کرتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ مقامی بازار کی رونق سے بھی لوگ یہاں پہنچ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔
شاہی جامع مسجد کے قریب ہوٹلوں میں افطار کے لئے مختلف قسم کے انواع اقسام تیار کئے جاتے تھے، جسے لوگ بہت پسند کرتے تھے۔
جامع مسجد میں روزہ افطار کی ایک پرانی تصویر اس دوران جامع مسجد کے قریب واقع مینا بازار اور دیگر بازاروں میں لوگوں کی کافی بھیڑ دکھائی دیتی تھی۔ تمام دکانیں سجی ہوا کرتی لیکن آج یہ بازار پوری طرح بند پڑا ہے، دکانیں بند ہیں اور کسی کو بھی بلا وجہ گھومنے کی اجازت نہیں ہے۔
واضح ہو کہ جامع مسجد کی تعمیر مغل بادشاہ شاہجہاں نے 1650 میں شروع کرائی تھی، جو 6 سال کی محنت کے بعد 1656 میں مسجد بن کر تیار ہوئی۔ جامع مسجد لال پتھر اور سنگ مرمر سے بنی ہوئی ہے اور لال قلعہ سے اس کی دوری محض 500 میٹر ہے۔ مسجد کا صحن اور نماز ادا کرنے کی جگہ انتہائی خوبصورت ہے۔ اس میں گیارہ محرابیں ہیں۔ درمیانی محراب سب سے بڑی ہے۔ جامع مسجد کے اوپری گنبد کو سفید اور سیاہ سنگ مرمر سے سجایا گیا ہے۔