قومی دارالحکومت دہلی میں حالیہ دنوں پیش آئے فسادات میں جہاں سینکڑوں لوگوں کے گھر خاکستر ہوئے دکانیں تباہ و برباد ہوئیں، روزی روٹی کمانے کے تمام تر ذرائع برباد ہوگئے۔ تقریبا سینکڑوں زخمی ہوئے اور نہ جانے کتنے ہلاک ہوئے۔
ہر شخص کی اپنی ایک کہانی ہے، ہر ایک کی زبان پر اپنی بربادی کے فسانے ہیں۔ کسی نے ماں باپ کو کھو یا تو کسی نے بیوی بچوں کو تو کسی نے بھائی، شوہر، باپ ، نہ جانے کس نے کس کس کو کھویا ہوگا۔
وقت جوں جوں گزر رہا ہے اپنی بربادی کا فسانہ سناتا کوئی کوئی نہ مل ہی جا رہا ہے۔ آنکھیں نم لبوں پے سسکیاں روندھی ہوئی آواز اور نہ جانے کتنے غم۔
آنکھوں سے نابینا حافظ محمود اسلم کی بھی کہانی کچھ ایسی ہی ہے، انکی اہلیہ کچی کھجوری علاقے میں رہڑی پر سامان فروخت کرتی تھیں۔ جب فسادات کی لو تیز ہونے لگی تو ان کی اہلیہ سامان چھوڑ کر اپنی جان بچاتے وہاں سے بھاگ نکلیں، لیکن تششد پر آمادہ لوگوں نے ان کی رہڑی کو ہی آگ کے حوالے کر دیا۔ اسی رہڑی سے ان کے گھر کا خرچ چلتاتھا۔