جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے کہاکہ کسی بھی اراضی کے انخلاء کے لیے قانونی پروسیس کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ قانون کی تشریح کے مطابق جن لوگوں کو بے گھر کیا جاتا ہے ان کے لیے متبادل رہائش کا انتظام کرنا لازمی ہے مگر درانگ ضلع کے دھولپور گاؤں میں ایسا نہیں کیا گیا۔ وہاں انخلاء کے عمل کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر غیر انسانی رویہ اختیار کیا گیا“۔
انہوں نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی ہندکے وفد نے جمعیۃ علماء ہند اور ایس آئی او (اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا) کے ساتھ متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے کے بعد جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق انخلاء کا عمل اس طرح نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہئے۔ کسی جگہ طویل عرصے سے رہائش پذیر شہریوں کے انخلاء سے قبل ان کی رہائش سمیت معاش، تعلیم اور صحت کا متبادل انتظام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔مگر یہاں معاملے کو جس طرح فرقہ وارانہ رنگ دے کر ایک مخصوص طبقے کو نشانے پر لیا گیا ہے وہ کسی بھی مہذب ریاست کے لئے بدنما داغ ہے“۔انہوں نے کہاکہ اس وفد میں ایس امین الحسن، نائب امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا حکیم الدین قاسمی، جنرل سکریٹری جمعیت علمائے ہند، شفیع مدنی، سکریٹری جماعت اسلامی ہند، سلمان احمد صدر ایس آئی او اور دیگر قائدین شامل تھے۔
کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے ایس امین الحسن صاحب نے کہا کہ”وفد نے تمام متاثرہ علاقے کا دورہ کیا، متاثرین سے ملاقات کی اور وہاں غیر انسانی و غیر اخلاقی صورت حال کا جو مشاہدہ کیا، اس سے آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما سے ملاقات کرکے ان کے سامنے رکھی اور اپنی تشویشات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پورے معاملے کی غیر جانبدارانہ، شفافیت کے ساتھ جانچ کرائی جائے، خاطی افسران کے خلاف کارروائی کی جائے اور متاثر ہونے والے خاندانوں کی آبادکاری کا فوری بندوبست کیا جائے، جس کے گھر کی اموات ہوئی ہیں انہیں مناسب معاوضہ دیا جائے۔ان کی باتیں سن کر وزیر اعلی نے متاثرین کو انصاف دلانے کا وعدہ کیا۔وفد نے ڈی سی اور ایس پی سے بھی ملاقات کی اور ان کے سامنے اپنے تاثرات رکھے جس پر انہوں نے بھی متاثرین کو انصاف دلانے میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کا یقین دلایا۔