اردو

urdu

ETV Bharat / city

دربھنگہ: جالے اسمبلی حلقہ میں مقابلہ دلچسپ

جالے اسمبلی حلقہ سے اہم دعویداروں میں مقامی رکن اسمبلی بی جے پی سے جیبیش کمار، مہاگٹھبندھن سے کانگریس امیدوار اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر مشکور عثمانی اور گرینڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے ٹکٹ پر محمد صفدر امام اہم ہیں۔

darbhanga
darbhanga

By

Published : Oct 20, 2020, 2:26 PM IST

دربھنگہ ضلع کے دس اسمبلی حلقہ میں سے ایک سب سے اہم اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اسمبلی حلقہ 87 جالے اسمبلی حلقہ ہے۔ سال 2020 کے ووٹر لسٹ کے مطابق اس اسمبلی حلقہ میں کل 03 لاکھ 12 ہزار 88 ووٹرز ہیں، جس میں مرد ووٹروں کی تعداد 01 لاکھ 65 ہزار 525 ہے جبکہ خاتون ووٹرز کی تعداد 01 لاکھ 46 ہزار 558 ہے۔

دربھنگہ: جالے اسمبلی حلقہ میں مقابلہ دلچسپ

جالے اسمبلی حلقہ سیتا مڈھی، مدھوبنی اور مظفر پور ضلع سے جڑا ہوا ہے۔ جالے بلاک کی 25 اور سنگھ وارا بلاک کی 13 پنچایتیں اس اسمبلی حلقہ میں شامل ہیں۔ دربھنگہ ضلع کے دس اسمبلی حلقہ میں سے سب سے زیادہ مسلم ووٹرز اسی اسمبلی حلقہ میں ہیں، جن کی آبادی تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار ہے۔


جالے اسمبلی حلقہ آزادی کے بعد ہوئے پہلے انتخاب یعنی 1951 سے ہی وجود میں رہا ہے۔ یہ اسمبلی حلقہ شروع سے سیلاب، بے روزگاری اور نقل مکانی کے مسائل سے جوجھتا رہا ہے۔

راماین سرکٹ میں شامل عالمی مقبول مذہبی مقام اہلیہ استھان اور گوتم کنڈ بھی اسی اسمبلی حلقہ میں ہے۔ اس اسمبلی حلقہ کے سب سے پہلے رکن اسمبلی عبد السمیع حسینی ندوی تھے جو سال 1951 میں کانگریس کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے بعد سال 1957 میں کانگریس سے ہی شیخ طاہر حسین رکن اسمبلی بنے، سال 1962 میں کانگریس کی ٹکٹ پر نارائن چودھری کامیاب ہوئے۔

گاؤں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی

سال 1967 میں سی پی آئی کی ٹکٹ پر کے حسین کامیاب ہوئے تھے، سال 1969 میں بھارتی جن سنگھ کی ٹکٹ پر تیز نارائن کامیاب ہوئے، سال 1972 میں سی پی آئی سے خادم حسین دوبارہ کامیاب ہوئے۔

اسی طرح سال 1977 میں جنتا پارٹی کی ٹکٹ پر کپیل دیو ٹھاکر اسمبلی پہنچے لیکن 1980 میں سی پی آئی کی ٹکٹ پر عبدل سلام رکن اسمبلی بنے، سال 1985 میں کانگریس کی ٹکٹ پر لوکیش ناتھ جھا کامیاب ہوئے، سال 1990 میں کانگریس کی ٹکٹ پر وجے کمار مشرا کامیاب ہوئے، سال 1995 میں عبدل سلام سی پی آئی سے کامیاب ہوئے، 2000 میں بی جے پی کی ٹکٹ پر وجے کمار مشرا کامیاب ہوئے، 2005 میں راجد کی ٹکٹ پر رام نواس کامیاب ہو ئے لیکن 2010 میں بی جے پی کی ٹکٹ پر وجے کمار مشرا دوبارہ کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد سے یہ سیٹ بی جے پی کے پاس ہی رہی۔ سال 2015 میں بی جے پی نے امیدوار بدل دیا اور جیویش کمار کو ٹکٹ دیا اور جیویش کمار یہاں سے رکن اسمبلی بنے۔
اسمبلی کے اہم ایشوز میں سیلاب، نقل مکانی، سڑک، بے روزگاری، بہتر طبی خدمات اور بہتر تعلیمی سہولیات ہیں۔

حلقہ میں مسلم ووٹر کے بعد بنیا (ویشیہ) طبقہ کے ووٹر کی تعداد زیادہ ہے، اس کے بعد براہمن اور بھومیہار ووٹر ہیں، اس کے علاوہ دیگر طبقات کے رائے دہندگان ہیں۔


جالے اسمبلی حلقہ کی صورتحال پچھلے 15 سالوں میں زیادہ تبدیل نہیں ہوئی ہے، گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران یہاں کے ایک پی ایچ سی کو ریفرل اسپتال کا درجہ دیا گیا ہے اور ایک اگریکلچر سائنس مرکز قائم کیا گیا ہے۔

گاؤں کی سڑک

جالے میں مسلم آبادی والے گاؤں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن یہ علاقہ ترقی سے کافی دور ہے، ان علاقوں میں محکمہ اقلیتی فلاح کی جانب سے بھی کوئی کام نہیں کرایا گیا ہے۔

جالے اسمبلی حلقہ سے کانگریس امیدوار اور اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر مشکور عثمانی نے کہا کہ یہاں ترقیاتی کام نہیں کے برابر ہوئے ہیں، پچھلے پندرہ سال میں این ڈی اے کی حکومت نے کچھ نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ تعلیم، صحت، روزگار تمام ہی مسائل پر حکومت ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کی 65 فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے جسے ہماری حکومت کی تشکیل کے بعد 100 فیصد کرنے کا ہدف ہم لوگوں نے رکھا ہے۔ عثمانی نے بتایا کہ انہیں تمام طبقات کی حمایت مل رہی ہے۔



جالے اسمبلی حلقہ سے گرینڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کی ٹکٹ پر میدان میں اترے محمد صفدر امام نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں جگہ جگہ لوگوں سے رابطہ کر رہا ہوں، مجھے تمام طبقات کے لوگوں کی حمایت حاصل ہے، میں یہاں کا مقامی امیدوار ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں ترقیاتی کام نہیں کے برابر ہوئے ہیں۔ سڑک، تعلیم، طبی خدمات، روزگار کسی ایشو پر حکومت نے کام نہیں کیا ہے۔

بی جے پی کے موجودہ رکن اسمبلی جیبیش کمار کے متعلق گرینڈ ڈیموکریٹک فرنٹ امیدوار نے کہا کہ ان کا اس بار کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ مشکور عثمانی پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں گاندھی حمایتی کو لوگ موقع دیں گے جناح کے حمایتی کو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کامیابی ملی تو میں اس اسمبلی حلقہ میں طبی سہولیات بہتر بنانے، لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور تعلیمی ڈھانچہ کو بہتر بنانے کا کام کروں گا۔



مقامی یوتھ کانگریس رہنما سید تنویر احمد نے کہا کہ جالے اسمبلی حلقہ اور ضلع کے مسلم علاقوں کے لئے اقلیتی فلاح محکمہ سے فنڈز تو فراہم کیا گیا لیکن زمینی سطح پر کچھ نہیں ہوا ہے۔


پہلی پر حق رائے دیہی کا استعمال کرنے والوں میں عبدالوہاب کا کہنا ہے کہ وہ ایک نوجوان کو ووٹ دینا بہتر سمجھتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہو، تبھی علاقے میں تعلیم کے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔


مقامی باشندہ ذکی علی نے بتایا کہ ان کے گاؤں ریودھا میں سب سے زیادہ مسلم طبقہ کی آبادی ہے لیکن علاقے میں ترقیاتی کام نہیں کرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے گاؤں سے رکن اسمبلی رام نواس تھے اور ایک وزیر بھی رہے ہیں لیکن آج تک گاؤں کی تصویر نہیں بدلی، سڑکیں بہت خراب ہیں، اس بار کچھ مہینے پہلے ہم لوگوں نے پوسٹر لگایا تھا کہ سڑک نہیں تو ووٹ نہیں، اس بار تبدیلی ہوگی جو بھی اچھے امیدوار ہوں گے انہیں موقع دیا جائے گا۔

مقامی یوتھ ووٹر فيحان محمود نے کہا کہ موجودہ رکن اسمبلی نے پچھلے پانچ سال میں اس گاؤں ہی کیا کہیں بھی ترقی کے کام کی جانب توجہ نہیں دی اور اس بار لازمی طور پر تبدیلی ہوگی۔

بی جے پی کے امیدوار کا راست مقابلہ کانگریس امیدوار سے دکھائی دے رہا ہے لیکن کانگریس امیدوار کے کھیل کو گرینڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے امیدوار سے نقصان ہونے کی حالت میں مقامی رکن اسمبلی ایک بار پھر اسمبلی تک پہنچ سکتے ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details