دربھنگہ ضلع کے دس اسمبلی حلقہ میں سے ایک سب سے اہم اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اسمبلی حلقہ 87 جالے اسمبلی حلقہ ہے۔ سال 2020 کے ووٹر لسٹ کے مطابق اس اسمبلی حلقہ میں کل 03 لاکھ 12 ہزار 88 ووٹرز ہیں، جس میں مرد ووٹروں کی تعداد 01 لاکھ 65 ہزار 525 ہے جبکہ خاتون ووٹرز کی تعداد 01 لاکھ 46 ہزار 558 ہے۔
جالے اسمبلی حلقہ سیتا مڈھی، مدھوبنی اور مظفر پور ضلع سے جڑا ہوا ہے۔ جالے بلاک کی 25 اور سنگھ وارا بلاک کی 13 پنچایتیں اس اسمبلی حلقہ میں شامل ہیں۔ دربھنگہ ضلع کے دس اسمبلی حلقہ میں سے سب سے زیادہ مسلم ووٹرز اسی اسمبلی حلقہ میں ہیں، جن کی آبادی تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار ہے۔
جالے اسمبلی حلقہ آزادی کے بعد ہوئے پہلے انتخاب یعنی 1951 سے ہی وجود میں رہا ہے۔ یہ اسمبلی حلقہ شروع سے سیلاب، بے روزگاری اور نقل مکانی کے مسائل سے جوجھتا رہا ہے۔
راماین سرکٹ میں شامل عالمی مقبول مذہبی مقام اہلیہ استھان اور گوتم کنڈ بھی اسی اسمبلی حلقہ میں ہے۔ اس اسمبلی حلقہ کے سب سے پہلے رکن اسمبلی عبد السمیع حسینی ندوی تھے جو سال 1951 میں کانگریس کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے بعد سال 1957 میں کانگریس سے ہی شیخ طاہر حسین رکن اسمبلی بنے، سال 1962 میں کانگریس کی ٹکٹ پر نارائن چودھری کامیاب ہوئے۔
سال 1967 میں سی پی آئی کی ٹکٹ پر کے حسین کامیاب ہوئے تھے، سال 1969 میں بھارتی جن سنگھ کی ٹکٹ پر تیز نارائن کامیاب ہوئے، سال 1972 میں سی پی آئی سے خادم حسین دوبارہ کامیاب ہوئے۔
اسی طرح سال 1977 میں جنتا پارٹی کی ٹکٹ پر کپیل دیو ٹھاکر اسمبلی پہنچے لیکن 1980 میں سی پی آئی کی ٹکٹ پر عبدل سلام رکن اسمبلی بنے، سال 1985 میں کانگریس کی ٹکٹ پر لوکیش ناتھ جھا کامیاب ہوئے، سال 1990 میں کانگریس کی ٹکٹ پر وجے کمار مشرا کامیاب ہوئے، سال 1995 میں عبدل سلام سی پی آئی سے کامیاب ہوئے، 2000 میں بی جے پی کی ٹکٹ پر وجے کمار مشرا کامیاب ہوئے، 2005 میں راجد کی ٹکٹ پر رام نواس کامیاب ہو ئے لیکن 2010 میں بی جے پی کی ٹکٹ پر وجے کمار مشرا دوبارہ کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد سے یہ سیٹ بی جے پی کے پاس ہی رہی۔ سال 2015 میں بی جے پی نے امیدوار بدل دیا اور جیویش کمار کو ٹکٹ دیا اور جیویش کمار یہاں سے رکن اسمبلی بنے۔
اسمبلی کے اہم ایشوز میں سیلاب، نقل مکانی، سڑک، بے روزگاری، بہتر طبی خدمات اور بہتر تعلیمی سہولیات ہیں۔
حلقہ میں مسلم ووٹر کے بعد بنیا (ویشیہ) طبقہ کے ووٹر کی تعداد زیادہ ہے، اس کے بعد براہمن اور بھومیہار ووٹر ہیں، اس کے علاوہ دیگر طبقات کے رائے دہندگان ہیں۔
جالے اسمبلی حلقہ کی صورتحال پچھلے 15 سالوں میں زیادہ تبدیل نہیں ہوئی ہے، گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران یہاں کے ایک پی ایچ سی کو ریفرل اسپتال کا درجہ دیا گیا ہے اور ایک اگریکلچر سائنس مرکز قائم کیا گیا ہے۔
جالے میں مسلم آبادی والے گاؤں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن یہ علاقہ ترقی سے کافی دور ہے، ان علاقوں میں محکمہ اقلیتی فلاح کی جانب سے بھی کوئی کام نہیں کرایا گیا ہے۔
جالے اسمبلی حلقہ سے کانگریس امیدوار اور اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر مشکور عثمانی نے کہا کہ یہاں ترقیاتی کام نہیں کے برابر ہوئے ہیں، پچھلے پندرہ سال میں این ڈی اے کی حکومت نے کچھ نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ تعلیم، صحت، روزگار تمام ہی مسائل پر حکومت ناکام رہی ہے۔