دربھنگہ ضلع کے 10 اسمبلی حلقوں میں سے ایک اہم اسمبلی حلقہ 83 دربھنگہ شہری اسمبلی حلقہ ہے۔
اس اسمبلی حلقہ میں انتخابی میدان میں کل 19 امیدوار اس بار اپنی قسمت آزما رہے ہیں، جس میں این ڈی اے کی طرف سے بی جے پی کے موجودہ رکن اسمبلی سنجے سراوگی بھی ہیں جو گذشتہ چار مرتبہ اس نشست سے رکن اسمبلی رہے ہیں۔
اب پانچویں مرتبہ فتح کرنے کے لیے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔
وہیں عظیم اتحاد کی طرف سے آر جے ڈی کے ٹکٹ پر امرناتھ گامی میدان میں ہیں جو دربھنگہ کے حیا گھاٹ اسمبلی حلقہ سے بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے تھے۔
اس مرتبہ پارٹی بدل کر آر جے ڈی کے ٹکٹ پر اپنے اسمبلی حلقہ کو بدل کر قسمت آزمانے میں لگے ہوئے ہیں۔
وہیں سیا رام پاسوان لوک جن شکتی پارٹی سے تو وہیں محمد امجد خان سماجوادی پارٹی سے میدان میں اترے ہیں۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے ٹکٹ پر نور الدین زنگی کے ساتھ ساتھ دیگر 14 امیدوار بھی میدان میں ہیں۔
دربھنگہ شہری اسمبلی حلقہ کی تاریخ کے بارے میں اگر بات کی جائے تو سال 1952 میں پہلی بار اسمبلی انتخاب ہوا تھا۔ اس میں شیخ سعیدالحق یہاں کے پہلے رکن اسمبلی بنے تھے۔
وہیں آئندہ سالوں میں ہردے نارائن چودھری، جانکی رمن پرساد، بابو لال مہتو ،رادھا کانت چودھری، رامیسوری پرساد سنہا، سیام کماری، رام سیوک ٹھاکر، رامیشور سنگھ، راما ولبھ جین، سریندر جھا سمن، سوناتھ ورما، محمد عبدالسمیع ندوی، اشفاق انصاری، کا میشور پوروے، سلطان انصاری رکن اسمبلی رہے ہیں۔
سلطان انصاری کے بعد سال 2005 سے لگاتار سنجے سراوگی رکن اسمبلی ہیں۔
دربھنگہ 83 شہری اسمبلی حلقہ میں سال 2020 کے ووٹر لسٹ کے مطابق کل رائے دہندگان کی تعداد تین لاکھ پانچ ہزار تین سو 53 ہے ۔
اس میں خاتون ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 43 ہزار 274 ہے وہیں مرد ووٹروں کی تعداد ایک لاکھ 26 ہزار 69 ہے-
آبی جماؤ اس علاقے کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ جس سے مقامی آبادی برسوں سے شکار ہے۔ برسات کے موسم میں متعدد محلے میں سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔
دربھنگہ میڈیکل کالج ہسپتال میں بھی آبی جماؤ ہو جاتا ہے۔ اس سے عام شہری سے لیکر باہر سے آنے والے مسافر بھی پریشان رہتے ہیں۔
اس شہر میں دو یونیورسٹیاں بھی ہیں۔ ایک للت ناراین متھلا یونیورسٹی اور دوسرے کامیشور سنگھ سنسکرت یونیورسٹی۔ اس سے جرے ہوئے درجنوں کالج ہیں تاہم تعلیمی سال پیچھے رہنے سے طلباء اور ان کے سربراہ پریسان رہتے ہیں،
لمبے عرصے سے دربھنگہ شہر ٹریفک کے مسئلے سے دوچار ہے۔ حالانکہ حکومت نے یہاں ٹریفک ڈی ایس پی اور ٹریفک تھانہ بھی قائم کیا ہے تاہم لگاتار بڑھتی آبادی اور گاڑیوں کی تعداد سے اور سڑکوں پر ناجائز قبضہ کی وجہ سے عوام کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔