شام کو وزیراعلی نے پریس کانفرنس کے ذریعے پورے معاملے کی جانکاری دی۔ انہوں نے کہا کہ کی سب کی بات سننے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ میوا ت میں صدیوں سے بھائی چارہ رہا ہے۔ لیکن کچھ واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں جن سے بھائی چارے کو نقصان پہنچا ہے اور میڈیا میں خبریں آئیں جو کہ افسوسناک ہے۔
وزیر اعلی نے مانا کہ یہ معاملے عام اور چھوٹے تھے لیکن خبروں میں بات بڑھ گئی ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ نے ای ٹی وی بھارت کے ذریعے پوچھے گئے میوات کو بدنام کرنے والوں پر کارروائی کے متعلق سوال کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ پیچھے کی چھوڑئیے آگے کی سوچئے۔
ریاست کے وزیر اعلی نے کہا کہ میوات میں کچھ لوگ گوکشی کرتے ہیں جو نہیں کرنی چاہیے، اس سے بھائی چارہ بگڑتا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی شکایت بھی ملی ہے کہ گوتسکری میں ہندو لڑکے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کے متعلق قانون پہلے سے موجود ہے۔ اب فاسٹ ٹریک کورٹ میں گوکشی کے معاملے جلد سلجھائے جائیں گے اور جو سزا متعین ہے وہ دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی بھی مذہب قبول کر سکتا ہے۔ لیکن جبرا تبدیلی مذہب کو لیکر ایک بل کے تحت سخت قانون بنایا جائے گا۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں ہندو اقلیت میں ہیں وہاں دھرمادہ بورڈ کا قیام کرتے ہوئے ان کی زمینات کو محفوظ کرنے کے اقدامات کئے جائیں گے۔ کل ملا کر وزیر اعلی منوہر لال کھٹّر نے میوات کے بھائی چارے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کی یہاں پر جن واقعات کو بنیاد بنا کر خبریں چلائی گئی ہیں وہ معمولی واقعات ہیں۔