یہ الیکشن آپ کے لیے کافی زیادہ اہمیت کا حامل ہے، آپ کو کتنا اعتماد ہے کہ کانگریس ہریانہ میں دوبارہ اقتدار میں آئے گی؟
ہر انتخاب اہم ہوتا ہے، میں ریاست کا دورہ کر رہا ہوں اور گزشتہ مہینوں میں کسانوں، دلتوں اور تاجروں کے ساتھ پروگرامز کا اہتمام کیا ہے، وہ سب اس مرتبہ کانگریس کی حمایت کرنا چاہتے ہیں اگرچہ ہماری تنظیم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے لیکن کارکنان پرجوش ہیں، ہم ہریانہ میں حکومت بنائیں گے۔
لیکن 2019 لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے ہریانہ کی تمام 10 پارلیمانی نشستوں کو کھو دیا تھا۔ آپ 21 اکتوبر کو ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس کی وضاحت کیسے کریں گے؟
لوک سبھا انتخابات کوئی الگ تھلگ پول نہیں تھا، پورا شمالی ہندوستان ایک رجحان سے متأثر تھا لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ریاستی انتخابات قومی انتخابات سے مختلف ہوتے ہیں اور اسمبلی انتخابات میں ریاستی حکومت کی کارکردگی اور مقامی امور زیادہ اہم ہوتے ہیں، پارلیمنٹ کے مسائل بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں۔
ہریانہ میں کانگریس برسوں سے آپسی تنازعات کا شکاررہی ہے۔ ریاستی یونٹ کے سابق صدر اشوک تنور نے حال ہی میں ناقص ٹکٹوں کی تقسیم کا الزام عائد کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے کیا نئی ٹیم متحد ہے؟
جی ہاں، ہمارے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں، جو لوگ استعفیٰ دے چکے ہیں وہ اب یہاں نہیں ہیں تو ان کے بارے میں بات کیوں کی جائے۔ ہم سب متحد ہیں جن میں نئی ریاستی یونٹ کی سربراہ کماری سیلجا بھی شامل ہیں۔
کیا آپ ہریانہ میں کانگریس کے ممکنہ وزیراعلیٰ امیدوار ہیں؟
جب میں 2005 میں وزیراعلیٰ بنا تھا تو اس وقت کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ وزیراعلیٰ کون بنے گا۔ ایک قومی پارٹی صرف اس صورت میں چہرے کا اعلان کرتی ہے جب وہاں کوئی وزیراعلیٰ موجود ہو۔ منتخب پارٹی کے رکن اسمبلی اور ہائی کمان فیصلہ کریں گے کہ وزیراعلیٰ کون ہوگا۔ تاہم اگر مجھے ذمہ داری دی جائے گی تو میں اپنی جانب سے سب سے اچھی کوشش کروں گا۔
وہ کون سے تین اہم منصوبے ہیں جن پر آپ لوگوں سے کانگریس کے لیے ووٹ مانگ سکتے ہیں؟
دوہزار چودہ کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 154 وعدے کیے تھے لیکن کسی بھی وعدے کو پورا نہیں کیا۔ رائےدہندگان اب کھٹر حکومت کی ناکامی اور ماضی کی کانگریس حکومت کی کامیابیوں کا موازنہ کر رہے ہیں۔ ہمارے دور میں کسان خوش تھے۔ اس حکومت نے غریبوں کے لیے کچھ نہیں کیا جبکہ ہم نے انہیں پلاٹ دیئے۔ پیداوار کی لاگت بڑھ چکی ہے جبکہ منافع میں کمی آئی ہے اور کسانوں کو ایم ایس پی نہیں دیا جارہا ہے۔ انہوں نے پنجاب سے ہریانہ کے حکومتی اسٹاف کی تنخواہوں کی پیمائش کا وعدہ کیا تھا لیکن ایچ آر اے کے لیے ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے کے لیے 6000 کروڑ روپے مختص کرنا باقی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں امن وامان کی صورتحال کافی خراب ہوگئی ہے۔ ہریانہ میں روزانہ تین قتل اور پانچ عصمت دری کے علاوہ ڈاکیتی کے متعدد واقعات رونما ہوتے ہیں۔