اردو

urdu

ETV Bharat / city

منشی عبدالغنی گہر ہائے گمشدہ کے ایک نایاب شاعر

منشی عبد الغنی سلسلہ مصحفی کے ایک عظیم شاعر مرزا فائز بنارسی کے شاگرد تھے۔ یہ وہی مرزا فائز ہیں جنہیں پنڈت مدن موہن مالویہ نے بنارس ہندو یونیورسٹی میں اردو کا پہلا لیکچرار مقرر کیا تھا۔

منشی عبدالغنی گہر ہائے گمشدہ کے ایک نایاب شاعر

By

Published : Jun 13, 2019, 9:13 PM IST

Updated : Jun 18, 2019, 11:03 AM IST

منشی عبدالغنی 1863 میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک کھاتے پیتے درمیانی طبقے کے گھر آنے سے تعلق رکھتے تھے۔ قناعت پسندی نے دولت کمانے کی راہ سے دور ہی رکھا۔ تنگدستی یا کم آمدنی کو زندگی میں کوئی مسئلہ تصور نہ کرتے۔ ان تمام حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ نے اپنے علاقے میں تعلیم کو عام کرنے میں بہت اہم رول ادا کیا ۔

منشی عبدالغنی گہر ہائے گمشدہ کے ایک نایاب شاعر

اس سلسلے میں بنارس کے معروف شاعر نذیر بنارسی کے صاحب زادے محمد ظہیر سے بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ مرزا فائز کے بعد منشی عبد الغنی تھے جنہیں بنارس میں شعر و شاعری کے فن میں استاد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے باوجود یہ نمود و نمائش سے اس قدر بے نیاز تھے کہ نہ تو ان کو اخبارات و رسائل میں چھپنے کا شوق پیدا ہوا نہ ہی مشاعرے کے ذریعے عوام میں مشہور و معروف ہونے یا اپنی الگ شناخت بنانے کی للک پیدا ہوئی۔

منشی عبد الغنی اس ماحول کے پروردہ تھے جو دولت مند تو نہ تھا مگر اچھا ذوق رکھتا تھا۔ اس زمانے میں بڑے-بڑے تاجروں اور رئیسوں کے علاوہ عام آدمی بھی گھومنے پھرنے سیر سپاٹوں پر اچھی خاصی رقم خرچ کردیا کرتا تھا لیکن علم و ادب اور اس کی ترویج و ترقی یا شاعروں یا ادباء کی لکھی ہوئی کتابوں کی اشاعت کا احساس ہی نہ تھا ملک پر ہزار سالہ اقتدار کا خمار باقی تھا۔ سماج میں عیاشی شراب و شباب کا نشہ چھایا ہوا تھا۔
اس سلسلے میں جب بنارس کے بزرگ شاعر شاد عباسی سے گفتگو کی گئی توانھوں نے بتایا کہ منشی عبد الغنی مرزا فائز کے بعد بنارس کے سب سے بڑے عروض داں شاعر تھے جنہوں نے فن شاعری اور اس کے رموز و حقائق پر عبور کا مظاہرہ کیا۔

وجہ کیا ہے اور ان کی روایات کو نہ صرف دور کرتا ہے بلکہ ادبی اور فنی نقاط کے تعارف و ترویج کے لیے بھی شعوری کوششیں کی ہیں غنی غزل کے شاعر تھے لیکن ان کی خادم کلامی کے مظہر گھر کے شاندار قصائد بھی ہیں۔

انہوں نے اپنی شاعری میں اردو کی مختلف صنعت کا استعمال کیا ہے جیسے صنعت منقوطہ۔

صنعت ناد علی خودہ صبح کیسے کہتے ہیں کہ خواہ نظم ہو یا نثر صرف اس کا ہر لفظ نقطہ دار ہو جیسے۔

بے پیے چین غنی جیتے جی
جتنی پیتے بنے پی جیتے جی
بے پئے جب نہ بنی جیتے جی
شیخ شب خیز نے پی جیتے جی

اسی طرح صنعت غیر منقوطہ میں انہوں نے کہا۔

حوصلہ اور وصل کا دل کو
روگ اک عمر کا لگا دل کو
وہ کھلا وہ کھلا در دلدار
وہ ملا آہ کا صلہ دل کو

اسی طرح صنعت منقطع جس میں کوئی حرف ملا کر نہیں لکھا جاتا تھا آپ نے اس میں کوئی برف ملا کر نہیں لکھا جاتا مثال دیکھیں۔

دے وہ آواز دراے دل
دوڑا آپ آئے وہ دوا اے دل

صنعت مقلوب المستوی۔ مقلوب المسستوی وہ لفظ یا فقرہ یا مصرع جو عکس کرنے پر بھی وہی رہتا ہے۔

شکر ترکش شکر ترکش
آیا بارے تیر اب آیا

خلاصہ کلام یہ کہ منشی عبدالغنی مرحوم ایک باکمال شاعر تھے مگر ان کا حق ادا نہ ہو سکا ان کی جتنی پذیرائی ہونی چاہیے تھی وہ نہ ہوئی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے کلام کو عوام الناس کے سامنے لایا جائے اور عوام ان کے کلام سے محظوظ ہوں۔

Last Updated : Jun 18, 2019, 11:03 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details