منشی عبدالغنی 1863 میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک کھاتے پیتے درمیانی طبقے کے گھر آنے سے تعلق رکھتے تھے۔ قناعت پسندی نے دولت کمانے کی راہ سے دور ہی رکھا۔ تنگدستی یا کم آمدنی کو زندگی میں کوئی مسئلہ تصور نہ کرتے۔ ان تمام حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ نے اپنے علاقے میں تعلیم کو عام کرنے میں بہت اہم رول ادا کیا ۔
اس سلسلے میں بنارس کے معروف شاعر نذیر بنارسی کے صاحب زادے محمد ظہیر سے بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ مرزا فائز کے بعد منشی عبد الغنی تھے جنہیں بنارس میں شعر و شاعری کے فن میں استاد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے باوجود یہ نمود و نمائش سے اس قدر بے نیاز تھے کہ نہ تو ان کو اخبارات و رسائل میں چھپنے کا شوق پیدا ہوا نہ ہی مشاعرے کے ذریعے عوام میں مشہور و معروف ہونے یا اپنی الگ شناخت بنانے کی للک پیدا ہوئی۔
منشی عبد الغنی اس ماحول کے پروردہ تھے جو دولت مند تو نہ تھا مگر اچھا ذوق رکھتا تھا۔ اس زمانے میں بڑے-بڑے تاجروں اور رئیسوں کے علاوہ عام آدمی بھی گھومنے پھرنے سیر سپاٹوں پر اچھی خاصی رقم خرچ کردیا کرتا تھا لیکن علم و ادب اور اس کی ترویج و ترقی یا شاعروں یا ادباء کی لکھی ہوئی کتابوں کی اشاعت کا احساس ہی نہ تھا ملک پر ہزار سالہ اقتدار کا خمار باقی تھا۔ سماج میں عیاشی شراب و شباب کا نشہ چھایا ہوا تھا۔
اس سلسلے میں جب بنارس کے بزرگ شاعر شاد عباسی سے گفتگو کی گئی توانھوں نے بتایا کہ منشی عبد الغنی مرزا فائز کے بعد بنارس کے سب سے بڑے عروض داں شاعر تھے جنہوں نے فن شاعری اور اس کے رموز و حقائق پر عبور کا مظاہرہ کیا۔
وجہ کیا ہے اور ان کی روایات کو نہ صرف دور کرتا ہے بلکہ ادبی اور فنی نقاط کے تعارف و ترویج کے لیے بھی شعوری کوششیں کی ہیں غنی غزل کے شاعر تھے لیکن ان کی خادم کلامی کے مظہر گھر کے شاندار قصائد بھی ہیں۔
انہوں نے اپنی شاعری میں اردو کی مختلف صنعت کا استعمال کیا ہے جیسے صنعت منقوطہ۔
صنعت ناد علی خودہ صبح کیسے کہتے ہیں کہ خواہ نظم ہو یا نثر صرف اس کا ہر لفظ نقطہ دار ہو جیسے۔
بے پیے چین غنی جیتے جی
جتنی پیتے بنے پی جیتے جی
بے پئے جب نہ بنی جیتے جی
شیخ شب خیز نے پی جیتے جی