مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کی مشہور ادیبہ ڈاکٹر رضیہ حامد نام کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ان کے تعلیمی دور سے لے کر آج تک کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ رضیہ حامد ایک غیر معمولی صلاحیت کی حامل شخصیت ہیں۔
ڈاکٹر رضیہ حامد کی علمی خدمات کی شہرت صرف بھوپال میں ہی محدود نہیں ہے بلکہ ریاست مدھیہ پردیش کی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے دوسری ریاستوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ وہ ریاست مدھیہ پردیش کی ایک واحد ایسی ادیبہ ہیں جن کی اب تک 29 کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ڈاکٹر رضیہ حامد کی ہر کتاب ان کی لطیف اور گہری نظر کی گواہ ہیں کیونکہ وہ مواد کی دستیابی کے لیے کافی محنت کرتی ہیں۔
ڈاکٹر رضیہ حامد کا ایسے شہر سے پیدائشی تعلق ہے جہاں کی خواتین تعلیم کے میدان میں بہت سے کمالات دکھا چکی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ نواب سلطان جہاں بیگم کے بعد بھوپال میں اگر کوئی خاتون تعلیم و ادب کے لیے کوشاں ہے اور جو دہلی-نوئیڈا میں بھی سرگرم عمل رہیں تو وہ ڈاکٹر رضیہ حامد ہیں۔
انہوں نے اپنی زیرِ نگرانی فکر و آگہی کے بڑے نمبر نکالے جن میں فکر و آگہی بشیربدر نمبر ان کا خاص نمبر نکالنے کا پہلا قدم تھا۔ اس کے بعد کئی اور نمبر مثلاً علی گڑھ نمبر، بھوپال نمبر، رفعت سروش نمبر، بیکل اتساہی نمبر، اوپیرا نمبر وغیرہ نکالے۔
ڈاکٹر رضیہ حامد کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے خصوصی لگاؤ اور محبت قابل تعریف ہے۔ اے ایم یو اور اس کے بانی و قوم کے رہنما سرسید احمد خان کے تئیں ان کا ادب و احترام اور علی گڑھ تحریک کے لیے ان کا جذبہ تشکر اور بے پناہ محبت کا ثبوت ان کی فکر و آگہی میں "علی گڑھ تحریک سرسید اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ" کا شمارہ ہے، جو 992 صفحات پر مشتمل ہے۔