خاص بات یہ ہے کہ یہاں محرم کی دسویں تاریخ کو تعزیے کی تدفین نہیں ہوتی بلکہ اس کے ایک دن بعد 11ویں محرم کو تعزیے کی تدفین کی جاتی ہے جو عام روایات کے برعکس ہے۔
اس مام باڑے کی تعمیر سنہ 1840 کو سید بابو رضا حسین نے کرائی تھی۔ یہ آج بھی اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور و معروف ہے۔
محرم کے ایام میں شیعہ مکتبہ فکر سے منسلک افراد اس امام باڑے میں مجلس کا انعقاد کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ماتم اور نوحہ خوانی بھی کی جاتی ہے اور غم حسین کو برملا یاد کیا جاتا ہے۔
بہار کے شمالی علاقے میں شیعہ مسلمانوں کا یہ پہلا اور سب سے بڑا امام باڑہ کہلاتا ہے۔
ڈیڑھ سو برس پرانا امام باڑہ، فنہ تعمیر کا نمونہ محرم کے دنوں میں یہاں نوحہ خوانی کرنے والے ممتاز نوحہ خواں مولانا ڈاکٹر محمد مسلم کہتے ہیں کہ چودہ سو برس محرم میں انسانیت اور یزیدیت کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ اسی دن کو یاد کرتے ہوئے نوحہ کیا جاتا ہے۔ محرم کی دسویں تاریخ کو گھوڑے کو سجا کر اس کی زیارت کرائی جاتی ہے۔ اسے ذوالجناح کہتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق جس گھوڑے پر بیٹھ کر امام حسین آخری بار یزید کی فوج سے جنگ کرنے گئے تھے اس گھوڑے کا نام ذوالجناح تھا۔
امام حسین اور ان کے گھر والوں پر مسلسل تین دن تک پانی بند کر دیا گیا تھا۔ اس دوران ان کے گھوڑے نے بھی پانی نہیں پیا تھا۔ جنگ میں امام حسین کو شہید کرنے کے بعد ان کے گھوڑے کوبھی تیروں سے نشانہ بناکر شہید کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر جان نے بتایا کہ وہ امام حسین کی شہادت کو یاد کرتے ہوئے ماتم کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماتم کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا جاتا ہے کہ کس طرح سے انسانیت کی راہ پر چلتے ہوئے امام حسین نے کربلا کے میدان میں اپنی شہادت دی تھی۔
تاریخی امام باڑے سے نکلا جلوس آس پاس کی تمام جگہوں سے گھوم کر کربلا کے میدان میں پہنچتا ہے اور وہاں پہنچ کر تعزیے پر چڑھائے گئے پھولوں کو دفن کیا جاتا ہے۔ بھاگلپورکے شیعہ مسلمان شاہ جنگی واقع میدان میں زنجیری ماتم کر اپنے جسم کو لہو لہان کر لیتے ہیں۔ یہ روایت برسوں سے چلی آ رہی ہے۔