ایک میٹنگ میں محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران کو بلایا گیا تھا جب کہ دوسری میٹنگ میں شہر کے علماء کرام و مساجد کے ذمہ داران سے گفتگو کی گئی۔
بابری-ایودھہ معاملہ: کرناٹک اقلیتی کمیشن نے لیا سیکورٹی کا جائزہ محمکہ پولیس سے اڈیشنل ڈی جی پی امر کمار پانڈے، آئ جی پی رادھیکا اور پولیس کمیشنر کی جانب سے ایک اعلیٰ افسر نے اس اجلاس میں شرکت کی اور دوسری میٹنگ میں شہر کے دو اہم مفتیان نے اس میٹنگ میں شرکت کی۔
ان اجلاس کا مقصد یہ رہا کہ اگلے چند ایام میں بابری مسجد و ایودھہ معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو لیکر ریاست میں کسی قسم کی کوئی انہونی یا فساد نہ برپا ہو، اسی لیے محکمہ پولیس کو بلاکر جائزہ لیا گیا کہ ان کے جانب سے کیا حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اور اسی طرح علماء کرام و مساجد کے ذمیداران سے گفتگو کر ان سے یہ اپیل کی گئی کہ وہ محکمہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں کہ ہر حال میں امن کی فضا بنی رہے۔
اس سلسلے میں کرناٹکا اقلیتی کمیشن کے چیئرمین عبد العظیم نے ای. ٹی. وی بھارت کو بتایا کہ 1992 میں بابری مسجد کو ڈھائے جانے کے بعد جو فسادات ہوئے تھے اس کے لئے انتظامیہ کی لاپروائی ایک بڑی وجہ ہے اور ان فسادات میں ہزاروں معصوم افراد کا جانی و مالی نقصان ہوا اور پچھلے 28 سالوں سے کسی نہ کسی شکل میں سارا ہندوستان ایک قسم کی نفرت کی آگ میں جلتا رہا ہے اور امن و ہم آہنگی کو بڑا دھکہ پہونچا۔
عبدل عظیم نے اس موقع پر کہا کہ ملک میں ترقی تبھی ممکن ہے جب یہاں امن و سکون کا ماحول ہو اور اقلیتی کمیشن کی ذمیداری ہے کہ وہ ریاستی اقلیتوں کو ہر اعتبار سے سیکیورٹی فراہم کرے۔
اقلیتی کمیشن کے سیکرٹری انیس سراج نے ای. ٹی. وی بھارت کو بتایا کہ کمیشن نے محکمہ پولیس کو یہ ہدایات دئے ہیں کہ سیکیورٹی میں کسی قسم کی کوئی کثر نہ چھوڑی جائے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کے سرکردہ سماجی کارکنان سے بھی گزارش کی گئی ہے کہ مسجد کے ذمیداران کے تعاون کے ساتھ ہندو و مسلم افراد پر مشتمل محلہ وار امن کمیٹیوں کا قیام کریں اور بھائی چارے کو بحال کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً مسجاد میں اعلانات کرتے رہیں۔
انیس سراج نے مزید بتایا کہ اقلیتی کمیشن کی جانب سے اس سلسلے میں اخبارات کے ذریعے بیداری کے طور پر اعلانات بھی کئےجائینگے۔