لاک ڈاؤن ختم ہونے کے باوجود بھی رامپور کی جامع مسجد اور دیگر مساجد کے دروازے عام نمازیوں کے لئے اتنی لمبی مدت تک کیوں بند رہے اور پھر کس طرح کھل سکے۔ جانیں اس خصوصی رپورٹ میں۔
کورونا پازیٹیو مریضوں کے معاملوں میں بھلے ہی معمولی گراوٹ آئی ہو لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کو ختم ہوئے اب تقریباً سات ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان سات ماہ میں ان لاک کا عمل اختیار کرکے زندگی کی مختلف سرگرمیوں کو کھولا گیا۔ اسی طرح ملک بھر میں عبادت گاہوں کو بھی شرائط کے ساتھ کھولنے کی اجازتیں دی گئیں اور جب حکومت کی جانب سے بغیر کسی تکلف کے بڑی بڑی سیاسی ریلیاں اور دیگر عوامی تقریبات کا اہتمام ہونے لگا تو عبادگاہوں میں بھی لوگوں کی تعداد معمول کے مطابق ہوتی گئی۔
لیکن اگر بات کی جائے رامپور کی تو یہاں جامع مسجد سے لیکر ضلع کی چھوٹی بڑی تمام مساجد کے دروازے عام نمازیوں کے لئے 15 جنوری تک مسلسل بند ہی رہے جبکہ رامپور میں دیگر سرگرمیاں معمول کے مطابق انجام دی جانے لگی تھیں۔ اس دوران رامپور میں انتظامیہ کی جانب سے دیوالی میلہ اور ہنر ہاٹ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ جہاں ہر روز ہرزاروں کی تعداد میں لوگ پہنچے۔
رامپور کی عوام نے علماء اور جامع انتظامیہ کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہنر ہاٹ اور دیوالی میلے کے جم غفیر کو دیکھ کر بھی رامپور کے علماء اور جامع مسجد انتظامیہ نے مسجد کھلوائے جانے کے لئے صرف رسمی انداز میں بہت ہی عاجزی کے ساتھ ضلع انتظامیہ سے مساجد کے دروازے کھولنے کی اجازت حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ جب دیگر اضلاع کے علماء نے رامپور پہنچ کر سخت انداز میں مساجد کے دروازے عام نمازیوں کے لیے کھولے جانے کا مطالبہ کیا تب جاکر یہ ممکن ہو سکا کہ مسجد کے دروازے عام نمازیوں کے لیے بھی کھلے۔ تقریباً 11 ماہ بعد بزرگ عالم دین اور امام جامع مفتی محبوب علی نے جامع میں امامت کا فریضہ انجام دیا۔
بہرحال جامع مسجد کے ساتھ ہی ضلع کی دیگر چھوٹی بڑی مساجد میں بھی اب معمول کے مطابق نمازی نماز ادا کرنے جانے لگے ہیں۔ لمبی مدت کے بعد جامع مسجد میں نماز ادا کرکے نمازیوں نے بھی اپنی مسرت کا اظہار کیا۔