ریاست اترپردیش کے شہر بریلی میں آج کل لوگ بندروں کی دہشت پریشان ہوچکے ہیں چاہے وہ شہر بریلی کے بھی علاقے ہوں مثلاً کھنّو محلّہ، گھیر شیخ مٹّھو، زخیرہ، رکش بندان، بہاری پور، چھوٹی بمنپوری، سِوِل لائنس، روڈویز، ناولٹی، اعظم نگر، باغ برِگٹان اور سِکلا پور وغیرہ۔
ان سارے علاقوں میں جہاں بندروں کے ریوڑ سے لوگ بہت پریشان ہیں وہیں اہم بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں بندروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بندروں کی دہشت سے لوگ پریشان ایسا مانا جاتا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں ایک درجن سے زائد افراد کی چھت سے گرنے کی وجہ سے موت بھی ہوچکی ہے۔
یہ مہلک افراد بندروں کو چھت پر دیکھنے کے بعد جلدی مین چھت سے اُترنا چاہتے تھے، لیکن جلد بازی میں چھت سے نیچے آ گئے اور ان کی موت ہوگئی۔
بندر اکثر کثیر تعداد میں ہوتے ہیں اس لیے بچّے اور خواتین چھتوں پر جانے سے درتی ہیں۔ بندر چھتوں پر رکھے ٹینک کا ڈھکّن توڑ دیتے ہیں اور پانی گندا کرتے ہیں تاہم گھروں میں رکھا ہوا سامان نکالکر لے جاتے ہیں اور باقی سامان اطراف میں پھیلاکرچلے جاتے ہیں گھروں میں رکھے فریج کو کھول دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
شہری کو برسوں پرانے بندروں کے ریوڑ سے ابھی نجات نہیں مل پا رہی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ بجلی کے تاروں پر جھولتے ہیں جس کی وجہ سے گھر کی لائٹ چلی جاتی ہے۔ بندر جب بھی گھر میں آتے ہیں، موبائل، چارجر، دوا، پھل اور کھانا، جو کچھ مل جاتا ہے، اُٹھاکر لے جاتےن ہیں اور اس کا نقصان کردیتے ہیں۔
کھنّو محلّہ کے رہنے والے حاجی شہباز نے بتایا کہ بندروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ صبح سے ہی بندر گھروں میں آجاتے ہیں اور گھر کا سامان لے جاتے ہیں اور جو سامان اُن کے لیے مفید نہیں ہوتا ہے اسے بکھیر دیتے ہیں اس لیے بندروں کی وجہ سے گھر کے تمام کمرے بند رکھنا پڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کپڑے دھل کر سوکھنے کے لیے ڈالے جاتے ہیں، تو بندر اُن کپڑوں کو بھی زمین پر گرا دیتے ہیں۔
کہ ان علاقوں میں بندروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے محسن ارشاد نے بتایا کہ اب سردی کے دن ہیں، اگر خاندان کی خواتین یا بچّیاں گھر کی چھتوں پر دھوپ میں بیٹھنا چاہتی ہیں، تو وہ بندروں کے ڈر سے چھت پر نہیں جاتی ہیں۔
فائق اِنکلیو کے رہنے والے سلیم نے بتایا کہ فریج کھول کر گھر کا سامان نکالنا بندروں کی عام بات ہے۔ گھر کے آنگن میں کوئی چیز نہیں رکھ سکتے ہیں، حال یہ ہے کہ بندروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن نہ تو اِنہیں پکڑنے کے لیے کوئی انتظام کیا گیا ہے اور نہ ہی بریلی میونسپل کارپوریشن نے کوئی تجویز تیار کی ہے۔
بریلی حج سیوا سوسائٹی کے سرپرست پمّی خاں وارثی کا کہنا ہے کہ بریلی میں بندروں کی تعداد اچانک نہیں بڑھی ہے، بلکہ رفتہ رفتہ بندروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔
مقامی شہریوں نے کئی مرتبہ بریلی میونسپل کارپوریشن کے اعلیٰ عہدیداران کے سامنے اس مسئلہ کے حل لیے درخواست بھی دی ہے، لیکن کوئی حل نہیں نکلا۔
عوام کی سہولیت کے لیے بریلی میونسپل کارپوریشن کو لازمی طور پر بندروں کو پکڑنے کے لیے کوئی مضبوط قدم اُٹھانا چاہیے۔