اگر انسان میں جذبہ، ہمت، لگن اور کچھ کرنے کا جنون ہو تو جسمانی معزوری بھی اُس کا حوصلہ پست نہیں کر سکتی۔ بریلی کے مہتاب حسین نے اس محاورے کو معنی خیز بنا دیا ہے۔ وہ زبان سے بول نہیں سکتے ہیں، لیکن اپنی تیز رفتار سے وہ ایسی کامیابیوں کی کئی عبارتیں لکھ چکے ہیں۔ جو ہر آدمی کی زبان پر ہیں۔ لیکن آج یہ ایتھلیٹ کمزور مالی حالت کی وجہ سے اپنا کھیل جاری نہیں رکھ پا رہا ہے۔ یا یوں کہئے، ایک بین الاقوامی سطح پر کھیلنے والے ایتھلیٹ International Athlete کی تیز رفتار تھمنے کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔
آج یہ الفاظ بریلی کے مہتاب حسین کی زندگی پر نظر آتے ہیں۔ وہ صبح دوڑ کر ورلڈ چیمپین بننا چاہتے ہیں Mehtab wants to be a World Run Champion۔ اُن کی آنکھوں میں سنہرے خواب ہیں۔ وہ ہر شام اِن خوابوں کے موتیوں کی مالا بُنتے ہیں۔ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیئے وہ صبح ہوتے ہی گھر سے میدان میں دوڑنے کے لیئے نکل جاتے ہیں۔ کثرت کا یہ سلسلہ گزشتہ دو دہائی سے جاری ہے۔ وہ ایک درجن سے زائد ممالک میں معزور ایتھلیٹ کی حیثیت سے ہندوستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ مہتاب حسین کے پاس درجنوں انعامات ہیں۔ حوصلہ افزائی کے درجنوں خطوط ہیں۔ سرکاری ملازم بنانے کی یقین دہانی کرانے والے ”کال لیٹر“ بھی کثیر تعداد میں ہیں۔ اگر کچھ نہیں ہے تو وہ ہے ریس کے مقابلوں میں حصہ لینے کے لیئے پیسے۔
بریلی شہر کے چک محمود علاقے کے رہنے والے 37 سالہ مہتاب حسین جب تین برس کے تھے، تب اُن کے والدین نے محسوس کیا کہ اُن کا بیٹا معزور ہے۔ وہ نہ تو سُن سکتا ہے اور نہ ہی بول سکتا ہے Disabled athlete Mehtab Hussain Needs Help۔ لہذا، والدین بیٹے مہتاب کو خاص توجہ دینے لگے۔ مہتاب حسین بچپن سے ہی ریس کرنے میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔
اُنہوں نے سب سے پہلا مقالبہ سنہ 1995ء میں مغربی بنگال میں فتح کیا تھا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے مہتاب حسین نے 22 اسٹیٹ سطح، 19 نیشنل سطح، 6 ایشیا پیسفک فار ڈیف اور 1 انٹر نیشنل سطح پر ریس میں بطور ایتھلیٹ Athlete in National Level Races حصہ لیا۔ اس دوران اُنہوں نے سٹیٹ لیول پر 6 گولڈ، 6 سلور، 10 برونزے، قومی سطح پر 4 گولڈ، 5 سلور اور 10 برونزے اور بین الاقوامی سطح پر ایک سلور حاصل کیا۔