اپوزیشن کی لاکھ مخالفت کے باوجود اکثریت کے بل بوتے پر راجیہ سبھا کے ایوان میں کسانوں کی فلاح و بہبود کے تعلق سے تین بل منظور کر لیے گئے ، مودی حکومت اس ترمیم کو انقلابی قدم سے تعبیر کررہی ہے ، لیکن اپوزیشن نے اسے پارلیمانی جمہوریت کا کالا دن قرار دیا، تاہم اس پورے معاملے میں جن کی فلاح کے نام پر سب کچھ کیا جارہا ہے اور مستقبل میں جن کو اس کا سامنا کرنا ہے وہ کسان خود بھی پریشان ہیں ،کسانوں کا کہنا ہیکہ حکومت کسانوں کو بے یار ومددگار کرکے بڑے کاروباریوں کی منہ بھرائی کی راہ ہموار کررہی ہے ۔
اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود راجیہ سبھا میں تین کسان بل منظور
کسان بل راجیہ سبھا میں منظور ہوچکا ہے، مرکزی حکومت اسے کسانوں کی بھلائی کا نام دےرہی ہے جبکہ اپوزیشن پارٹیاں اس کی مخالفت میں کمربستہ ہیں ، ملک کی کئی ریاستوں میں کسان تنظیمیں راستے پر اتر آئی ہیں، ریاست مہاراشٹر کا کسان اس تعلق سے کیا سوچتا ہے ، کیوں ریاست میں معنی خیز خاموشی ہے کیا واقعی ریاست کے کسانوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں یا ان پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑھے گا۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت اوپن مارکیٹ کا دعوی کررہی ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، تاہم اوپن مارکیٹ کی آڑ میں روایتی مارکیٹ کمیٹیوں کو ختم کرنا حکومت کا منشا ہے ، کسان لیڈروں کا کہنا ہیکہ مینیمم سپورٹ پرائز یعنی ایم ایس پی کی جھنجھٹ سے چھٹکارا پانے کی بھی یہ ایک کوشش ہے ، جبکہ بیوپاریوں کا کہنا ہیکہ حکومت بھلے ہی خود کی پیٹھ تھپتھپالے لیکن حقیقت یہ ہیکہ ہر طرح سے کسان ہی نقصان میں رہے گا ۔
مجموعی طور پر مہاراشٹر کے کسانوں کو ابھی حکومت کے منظور کردہ بل کے بارے میں تفصیلی جانکاری نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس جھمیلے میں پڑھنے کے فراق میں ہیں تاہم مارکیٹ کمیٹیوں کو لیکر کسان اور کاروباری دونوں تشویش میں ہیں ۔ کسان تنظیموں کا کہنا ہیکہ مودی حکومت کو سب کو اعتماد میں لینا ضروری ہے خاص کر سپورٹ پرائز کے تعلق سے وضاحت لازمی ہے ورنہ کسانوں کا احتجاج ملک گیر احتجاج بن سکتا ہے