وادی کشمیر کی تینوں پارلیمانی نشستوں پر ریاست کی علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کو جیت حاصل ہوئی لیکن انتخابی نتائج کے جو تجزیہ سامنے آئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی وادی میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔
سنہ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو 10 ہزار ووٹز حاصل ہوئے تھے۔ لیکن 2019 کے عام انتخابات میں وہ 22 ہزار ووٹرز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی وادی میں اپنے قدم جما رہی ہے۔
عام انتخابات کے دوران بی جے پی ضلع پلوامہ کی ترال اسمبلی حلقہ میں سب سے زایدہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ۔
سیاسی ماہریںن کا کہنا ہے کہ اگر اسمبلی انتخابات کے دوران بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا تو بی جے پی کو وادی میں چند نشستوں پر کامیابی ملنے کے امکانات ہیں۔
رواں برس کے عام انتخابات کے دوران علحیدگی پسند رہنماؤں کی بائیکاٹ کال کی وجہ سے ترال اسمبلی حلقہ میں صرف 1019 رائے دہندگان نے اپنے رائے دیہی کا استمعال کیا۔ بی جے پی کے امیدوار صوفی یوسف کو 323 ووٹز حاصل ہوئے جبکہ نیشنل کانفرنس کے کامیاب امیدوار حسنین مسعودی کو 234 ووٹرز، پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی 220 ووٹرز اور کانگرس کے امیدوار غلام احمد میر 144 ووٹرز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
گزشتہ برس اسمبلی تحلیل ہونے سے قبل پی ڈی پی مشتاق احمد شاہ ترال امسبلی رُکن تھے، اس کے باوجود پی ڈی پی کو اس اسمبلی حلقے سے صرف 220 ووٹرز ووٹ حاصل ہوئے۔
وادی کی تین پارلیمانی نشستوں بارہمولہ، اننت ناگ اور سرینگر میں 13537 مہاجر ووٹ پڑے۔ ان میں سے 11648 رائے دہندگان نے بی جے پی کے حق میں رائے دہی کا اسعتمال کیا۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہاجر ووٹرز پر بی جے پی کی خصوصی نظر ہے۔ اور آنے والے اسمبلی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ مہاجر ووٹرز کو حق رائے دہی کا استعمال کرنے کی ترغیب کی دی جارہی ہے۔
بی جے پی کا ماننا ہے کہ وادی میں کم از کم 10 اسمبلی حلقوں پر پارٹی کی نظر ہے۔ ان میں سے 8 جنوبی کشمیر کی اسمبلی نشستیں شامل ہیں۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات کے دوران ان نشستوں میں بی جے پی کو اچھے خاصے ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔
بی جے پی کے مطابق اسمبلی حلقہ ترال کے علاوہ کولگام، ہومشالی باغ، شوپیاں، پلوامہ، راجپورہ، وچھی اور بجبہارہ اسمبلی نشستوں پرپارٹی کی توجہ مرکوز ہے۔