جموں کشمیر کا ریاست کا درجہ ختم کرکے اسے وفاق کے زیر انتظام دو خطوں میں منقسم کرنے کے ساتھ ساتھ اسکی خصوصی آئینی پوزیشن اور دیگر اختیار و مراعات بھی چھین لئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آئین ہند کی دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد اس سابق ریاست میں تنظیم نو ایکٹ 2019ء کے متعلقہ قوانین کو عملی طور پر نافذ کرنے اور دیگر قانونی پیچیدگیوں سے نمٹنے کےلئے کسی تجربہ کار افسر شاہ کی خدمات درکار تھیں۔
اس کام کےلئے وزیر اعظم نریندرا مودی کے پاس گریش چندر مرمو سے زیادہ بہتر انتخاب نہیں ہوسکتا تھا۔ کیونکہ موصوف نے نہ صرف عشرت جہاں اینکوانٹر معاملے میں مودی کے تئیں اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرچکے تھے بلکہ نریندر مودی، مرمو کی افسر شاہی صلاحتیوں سے بھی پوری طرح واقف تھے کیونکہ مرمو نے اُس وقت نریندر مودی کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثٰت سے کام کیا تھا، جب موصوف گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
گجرات کیڈر کے آئی اے ایس آفیسر گریش چندر مرمو، کو جموں کشمیر، جس کا درجہ گھٹا کر دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کیا گیا، میں قانونی پیچیدگیوں سے پُر معاملات کو سلجھانے کا کام تفویض کیا گیا تھا۔
یہ ایک ایسا خطہ ہے، جس میں وزیر اعلیٰ اور گورنر کے دفاتر ہر سال گرمائی دارالحکومت سرینگر سے جموں اور پھر واپس سرینگر منتقل ہوتے رہے ہیں۔ اب یہ خطہ ایک یونین ٹریٹری میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جہاں تک لداخ یونین ٹریٹری کا تعلق ہے، عملی طور پر اس کے انتظامی امور میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اب منتظمین کو شدت کی سردیوں کا قہر جھیلتے ہوئے منفی درجہ حرارت میں بھی اپنی خدمات کی انجام کےلئے یہاں موجود رہنا پڑے گا۔ تاہم سیکرٹریٹ سرما میں جموں اور پھر گرما میں واپس سرینگر منتقل ہوتا رہے گا اور اس طرح نوکر شاہوں اور ان کے کنبوں کو سخت ترین سردیوں میں وادی اور لداخ کی سردیوں کا قہر جھیلنے سے نجات ملے گی۔
علاحدگی پسند رجحان کو قابو کرنے کے مقصد کےلئے غیر پشتنی پاشندوں کو یہاں بسانا، سیکورٹی فورسز کو اضافی اختیارات تفویض کرنا، حکومت مخالف آوازوں کو کمزور کرنا بلکہ یہاں بھارت کے حق میں رجحانات کو زیادہ موثر بنانا جیسے مقاصد در اصل مرمو کے ایجنڈے میں سر فہرست تھے۔
دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد ڈومیسائل سرٹیفکیٹس (اقامتی اسناد) جاری کرنے کے عمل کو بغیر کسی شور و غوغا شروع کرنے اور تنطیم نو ایکٹ کے مطابق قانونی استحقاق رکھنے والوں کو ان اسناد کی فراہمی بغیر کسی بیروکریٹک اڑچن کے یقینی بنانے کا کام احسن طریقے سے مرمو کے سوا کوئی نہیں کرسکتا تھا۔
نئے قوانین کے نفاذ سے متعلق قواعد و ضوابط کچھ اس طرح سے بنائے گئے ہیں، کہ حکومتی ایجنڈا آسانی سے پورا ہوگیا۔ مرمو نے نئے قوانین کو نافذ کرنے کے عمل کے دوران اپنے تجربات اور موثر حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مخالفانہ آوازوں کو مدھم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس عرصے کے دوران قومی دھارے کے زیادہ تر سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو یا تو جیلوں میں رکھا گیا یا پھر اُنہیں اُن کے گھروں میں نظر بند رکھا گیا۔ ان میں سے جنہوں نے تعاون کیا، اُنہیں انتباہ کے ساتھ رہا کیا گیا۔ پی ڈی پی کے ایک سیاسی لیڈر نے اپنی رہائی کے بعد یہ انکشاف بھی کیا کہ رہائی کےلئے سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو ایک حکومتی دستاویز پر دستخط کرائے گئے، جس کی رو سے وہ اب حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
مرمو جیسا کوئی ایسا شخص ہی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک موثر ڈپلومیسی اختیار کرسکتا تھا، جو افسر شاہی کی زبان سے اچھی طرح واقف ہو۔ گزشتہ ایک سال کے دوران کشمیر سیاسی لحاظ سے خاموش اور بیروکریٹک لحاظ سے متحرک رہا ہے۔ لیکن اب سیاسی سٹیج تیار ہوگیا ہے اور ظاہر ہے کہ اس نئی صورتحال میں اب مرمو کا کوئی کردار نہیں ہوسکتا تھا۔ پچھلے سال جموں کشمیر میں لیفٹنٹ گورنر کا کردار غیر سیاسی تھا لیکن اب یہ خطہ سیاسی سرگرمیوں کےلئے تیار ہے۔
حالیہ دنوں میں انتخابات، حدبندی اور انٹرنیٹ پر پابندی جیسے موضوعات پر مرمو کا اظہارِ خیال نئی دلی کو راس نہیں آیا۔ یہ ایک عندیہ تھا کہ وہ اپنا کردار ادا کرچکے ہیں اور اب یہاں ان کے گنتی کے ہی دن رہ گئے ہیں۔
تاہم اُن کی وفاداری اور اُن کی صلاحیتوں کے پیش نظر انہیں بہتر عہدے یعنی کمپٹرولر آڈیٹر جنرل (محتسب اعلیٰ) کے منصب پر فائز کیا گیا۔
مرمو کی جگہ جموں کشمیر میں بحیثیت لیفٹنٹ گورنر تعینات کئے گئے منوج سنہا کو بی جے پی میں ایک منجھے ہوئے سیاسی لیڈر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ۔ سنہا خاموشی کے ساتھ اپنا کام کرنے کےلئے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عوام کے ساتھ جڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
سنہا کو بطور لیفٹنٹ گورنر تعینات کرنے کا مقصد اس خطے میں اُن سیاسی سرگرمیوں کو بحال کرنا ہے، جو اب تک موخر کی گئی تھیں۔ لگ بھگ ساری سیاسی قیادت کو جیلوں میں رکھا گیا تھا۔
بظاہر کوئی نئی بات ہونے والی نہیں ہے لیکن امکانی طور پر کچھ نئے چہرے اور رنگ بدلنے والے سیاست دان سامنے آکر سیاسی منظر نامے میں نارملسی کے رنگ بھرنے کےلئے ضرور سامنے آجائیں گے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جن لوگوں کو رہا کیا گیا ہے، وہ حکومت کے فیصلے پر اپنا سرِ تسلیم خم کرچکے ہیں۔