یوگی آدتیہ ناتھ 28 ستمبر کو ساڑھے گیارہ بجے لکھنؤ میں کشمیری طلبہ سے گفتگوکرنے والے تھے۔
نہ صرف علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے بلکہ علیگڑھ میں موجود دیگر تعلیمی ادارے جہاں پر کشمیری طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں سبھی سے وزیراعلی کو گفتگو کرنی تھی۔
جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں دو تین مرتبہ احتجاجی مارچ نکالا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیری طلبا کو عیدالاضحیٰ کے موقع پر جو دعوت دی گئی تھی وہ بھی یونیورسٹی کے کشمیری طلبا نے منسوخ کیا تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پی آر او عمر پیرزادہ نے بتایا کہ انہوں نے معلوم کیا علیگڑھ انتظامیہ سے وزیراعلی دفتر سے خط و کتابت ہوا ہے۔ علیگڑھ میں جتنے بھی تعلیمی ادارے ہیں اور جہاں پر بھی کشمیری طلبہ پڑھتے ہیں ان کے جو بھی سوالات ہیں ان کے لیے ایک انٹریکٹ سیشن رکھا ہے۔ وزیر اعلی گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کشمیری طلبہ سے مل کر ان کو یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھی پہل ہے۔ جتنے بھی تعلیمی ادارے ہیں جہاں کشمیری طلبہ پڑھتے ہیں اور جو جانا چاہتے ہیں یونیورسٹی انتظامیہ اور علیگڑھ انتظامیہ مل کر کشمیری طلبہ کے محفوظ سفر کے لئے جو بھی ہو سکتا ہے وہ لوگ محیا کریں گے۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین کے سابق نائب صدر سجاد سبحان عادل کا کہنا ہے، کیا بات کریں گے؟ آج کشمیر کو بند کیے ہوئے 52 دن ہو گئے۔ یوگی جی زخموں پر نمک چھڑکنا بند کرے۔ کشمیر کا مسئلہ ریاست اترپردیش کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مرکز کا مسلہ ہے۔ اگر مرکز سے خط آتا تو اس کے بارے میں سوچتے۔
سجاد سبحان نے کہا کہ یہ صرف اور صرف کشمیر کے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہے۔ کشمیر بند ہے۔ حالات خراب ہیں۔ ظلم ہو رہا ہے۔ مرکزی حکومت فوج کے ذریعے ظلم کروا رہی ہے۔ یہ کیا بات کریں گے؟ اگر یوگی کو کچھ کرنا ہی ہے تو یوپی کی جیلوں میں جتنے بھی بے گناہ کشمیری قیدی ہیں انہیں رہا کروائیں۔ سبان نے کہا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نہیں جائیں گے۔
سبحان نے کہا کہ آج 10 بجے یوگی ادتیہ ناتھ نے سینئر طلبہ کو بلایا تھا اور آج شام سات بجے پھر ایک میٹنگ رکھی ہے۔ انہوں نے کہا جب وہ اپنے گھر والوں سے بات نہیں کر پا رہے ہیں تو وہ کیا بات کریں گے؟
سبحان نے آگے بتایا کہ ابھی انہیں خط نہیں ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں علیگڑھ انتظامیہ اور یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی انہیں آگاہ نہیں کیا ہے۔