ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ کے سول لائن علاقے جامعہ اردو میں خواتین کے ذریعے گھروں میں تیار شدہ مختلف اشیاوں کی خرید و فروخت کے لیے خصوصی BLOOM FETE نامی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔
آج کے اس جدید اور بھاگ دوڑ کے دور میں بھی خاصی تعداد خواتین کی ایسی بھی ہے جو گھروں میں ہی رہ کر گھروں کے مختلف کاموں کے ساتھ مختلف قسم کی خاص اور خوبصورت اشیاء تیار کرتی ہیں۔ جن کو فروخت کرنے کے لیے ان کے پاس نہ تو اتنے پیسے ہوتے ہیں کہ وہ بازاروں کی دوکانوں میں فروخت کر سکے اور نہ ہی کوئی ایسا ذریعہ ہوتا ہے کہ جن سے ان کے ہاتھ سے تیار شدہ اشیاوں کی خرید لوگ زیادہ سے زیادہ بآسانی کر سکے Exhibition of home-made items by women in Aligarh۔
ہاتھ سے لکھے گئے خوبصورت ۔۔۔۔۔۔۔ پیارا نام ایسی تمام خواتین کو ایک بہترین پلیٹ فارم دستیاب کراتے ہوئے علی گڑھ جامعہ اردو میں ایک روزہ BLOOM FETE نامی نمائش کا اہتمام کیا گیا جس کا اجراء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ویمنس کالج کی پرنسپل پروفیسر نعیمہ خاتون نے کیا۔
خواتین کے ذریعے گھروں میں تیار شدہ اشیاء کی نمائش اس نمائش کا مقصد خواتین کے ذریعے تیار شدہ مختلف اور خوبصورت اشیاء اور خواتین کے ہنر کو لوگوں کے ذریعے بازار تک پہنچانا ہے۔ اس نمائش میں علاقے کی ایسی تمام خواتین نے حصہ لیا جو گھروں میں رہ کر ہاتھوں سے تیار کیا چیزوں کا چھوٹا کاروبار کررہی ہیں یا کرنے کی خواہش مند ہیں۔
اس BLOOM FETE نمائش کو آرگنائز کرنے والی یوسرا عرفان نے بتایا اس کا مقصد ان تمام خواتین کو پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ جو گھر میں رہ کر چھوٹا کاروبار کرتی ہی جو ہنر مند ہے جو جو وقت اور پیسوں کی وجہ سے بازار تک نہیں پہنچ پاتی۔ یہاں پر ان تمام خواتین کو مدعو کیا گیا ہے جو گھروں میں رہ کر اپنے ہنر سے مختلف قسم کی خوبصورت اشیاء تیار کرتی ہیں اور جو گھروں میں رہ کر ہی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ ہاتھوں سے تیار شدہ مختلف اشیاء، کڑھائی، بنائیں، خطاطی وغیرہ کی چیزیں کی نمائش کے ذریعے خرید و فروخت کی جا رہی ہے۔
خواتین کے ذریعے گھروں میں تیار شدہ اشیاء کی نمائش مزید پڑھیں:
خطاطی کا کام کرنے والی شافیہ معین نے کہا کہ آج کے اس جدید دور میں خطاطی کا چلن دن بدن ختم ہوتا جا رہا ہے خاص کر عربی خطاطی کا جس کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن مجید کی مختلف آیات کی خطاطی، خوبصورت رنگ کے ساتھ کر ان کو فروخت کرنے کے لئے بھی ایک اسٹال لگایا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خطاط کا چلن کم ہورہا ہے لیکن پھر بھی لوگوں میں اس کو سیکھنے اور سمجھنے کی دلچسپی دیکھی جا رہی ہے۔