سابق راجیہ سبھا رکن مرحومڈاکٹر ہاشم قدوائی ایک مجاہد آزادی اور اے ایم یو میں شعبہ علم سیاسیات کے استاد تھے۔ اپنی خود نوشت میں انہوں نے سنہ 1946 تک کی تحریک آزادی میں اپنی جدوجہد کی داستان رقم کی ہے۔
وائس چانسلر طارق منصور نے کتاب کا اجرا کرنے کے بعد ڈاکٹر ہاشم قدوائی سے اپنی طویل وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ خود نوشت ڈاکٹر ہاشم قدوائی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ان کے افکار پر روشنی ڈالتی ہے۔ کانگریس پارٹی میں انہوں نے ایک سپاہی کے طور پر طویل وقت گزارا اور اپنی قوم پرست سیاسی سرگرمیوں کو انہوں نے مذکورہ کتاب میں قلمبند کیا ہے۔
ڈاکٹرہاشم قدوائی کی خود نوشت سوانح حیات کا اجرا وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ' ڈاکٹر ہاشم قدوائی قوم کیلئے وقف ایک سیاسی کارکن تھے اور آخر دم تک انہوں نے اپنے اصولوں سے سمجھوتا نہیں کیا۔' پروفیسر طارق منصور نے مذید کہا کہ' ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پرووسٹ، پروفیسر، پراکٹر کے ساتھ ساتھ راجیہ سبھا رکن بھی رہے۔ انہوں نے اے ایم یو میں اہم خدمات انجام دیں۔' ڈاکٹرہاشم قدوائی کی خود نوشت سوانح حیات کا اجرا ڈاکٹر ہاشم قدوائی کے صاحبزادے ڈاکٹر سلیم قدوائی نے پروگرام کی نظامت کے دوران کہا کہ 'یہ خود نوشت کا مسودہ والد کے غیر مطبوعہ ذخیرے میں ملا۔ موجودہ وقت میں ان کی اشاعت اس لیے ضروری محسوس ہوئی کیونکہ یہ کتاب تحریک آزادی کی تاریخ کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے جن کے ڈاکٹر ہاشم قدوائی عینی شاہد رہے ہیں۔ اے ایم یو کے خازن پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن نے ڈاکٹر ہاشم قدوائی کے مختلف خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ' وہ طلبا کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ' ڈاکٹر ہاشم قدوائی کی سرگزشت حیات صرف ان کی زندگی کی سرگزشت نہیں ہے، بلکہ یہ تحریک آزادی کی تاریخ ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح وہ قوم پرست مسلمان بن کر کھڑے رہے اور اس زمانے میں فرقہ پرستی کا مقابلہ کیا۔
مزید پڑھیں:ایک ایسی ڈاکٹر جو بیٹی پیدا ہونے پر نہیں لیتی ہیں پیسے
ڈاکٹر سلیم قدوائی نے مزید کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ میرے والد کی کتاب کا اجراء خود وائس چانسلر نے کیا۔