ریاست اترپردیش کے کاسگنج کے رہائشی 22 سالہ الطاف کی پولیس حراست میں موت پر سول سوسائٹی میں ناراضگی پائی جارہی ہے اور پولیس کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
وہیں الطاف کی موت پر پولیس کی جانب سے جاری بیان پر بھی خوب تنقید ہورہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ الطاف حسین نے بیت الخلا جانے کی ضد کی تھی جس کے بعد اس نے بیت الخلاء میں موجود پانی کی ٹوٹی پر لٹک کر خودکشی کرلی۔ پولیس کے اس بیان پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیت الخلاء میں موجود ٹوٹی اتنی اونچائی پر تھی جس پر 5 فٹ سے زیادہ لمبا آدمی لٹک کر خودکشی کر سکتا ہے۔'
ہمارا مطالبہ ہے کہ الطاف کے اہل خانہ کو ایک کروڑ کا معاوضہ دیا جائے۔ اس میں کسی بھی طرح کا امتیازی سلوک نہ برتا جائے۔
مزید پڑھیں:
راشٹیہ لوک دل کے جنرل سیکریٹری راجہ بھیا نےکہا ہمارے اور عوام کی ذہن میں جو سوال اٹھ رہا ہے وہ یہی ہے کہ کاس گنج پولیس ہی الطاف حسین کی قاتل ہے۔ انہوں نے ہی اس کا قتل کیا ہے۔ اسی لئے راشٹیہ لوک دل کا مطالبہ ہے کہ وہاں کے ایس پی اور تمام پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہو اور اس پورے معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہو۔'