ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں موجود سرسید ہاؤس کے دونوں کنویں بہت تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔
سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ 1876 میں سرسید احمد خان بنارس سے تبادلہ ہو کر علیگڑھ تشریف لائے تو یہ مکان خرید کر جسٹس سید محمود نے دیا تھا۔ اس کے بعد سر سید احمد خاں 1898 تک اسی مکان میں رہے اس مکان کا کیمپس 13.7 ایکڑ کا ہے۔
ڈاکٹر محمد شاہد نے مزید بتایا کہ سرسید کے زمانے میں اس مکان میں بہت سے باغات بھی تھے۔ یہاں اس زمانے میں ایک کرکٹ کا میدان اور ٹینس کا میدان بھی تھا، تو ان سارے باغات کو پانی دینے کے لیے اس کیمپس کے اندر دو کنویں بنائے گئے تھے، جو اس زمانے سے ہی ہیں۔ ایک مشرق کی جانب اور دوسرا مغرب کی جانب۔ یہ دونوں کنویں تقریبا ایک سی حیثیت رکھتےں ہیں اور جو مشرق کی جانب کنواں موجود ہے اس کے برابر میں کرکٹ میدان ہوتا تھا اور ٹینس کورٹ ہوتا تھا۔ اس کے چاروں طرف پکی نالیاں بنی ہوئی تھی جس سے پانی میدانوں میں جاتا تھا۔
سرسید ہاؤس کے دونوں کنویں تاریخی اہمیت کے حامل ڈاکٹر محمد شاہد نے مزید بتایا کہ ایک کتاب میں ملتا ہے کہ اس زمانے میں پولی اور بیلوں کے ذریعے کنویں سے پانی نکالا جاتا تھا جب بیل چلتے تھے تو پانی کنویں سے نکل کر نالیوں کے ذریعے میدانوں میں جاتا تھا۔ اس زمانے میں پانی کا ذریعہ صرف کنواں ہوتا تھا تو یہ دونوں کنویں بہت تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ کیوںکہ ان کی نشانیاں یہاں موجود ہیں جو ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ کس طرح سر سید احمد خان کے زمانے میں کنویں سے پانی کا استعمال کیا جاتا رہا ہوگا۔
سرسید ہاؤس کے دونوں کنویں تاریخی اہمیت کے حامل محمد ڈاکٹر شاہد نے مزید بتایا کہ ایک جگہ اس بات کا ذکر بھی ہے کہ ایک تیسرا کنواں بھی سرسید کے زمانے میں بنا تھا، جہاں آج قرانک سینٹر ہے، اس کے پیچھے چھوٹے سے کنویں کی نشانی ملتی ہے جو بعد میں بنا تھا جو اب ختم ہو چکا ہے۔