یونیورسٹی کی انجینئرنگ فیکلٹی کے طلباء وطالبات نے ایک حراستی مرکز کا ماڈل بنا کر باب سید کے قریب رکھا ہے، جس میں خود طلبہ حراستی مرکز کے اندر موجود رہ کر ملک کی عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے بعد ملک کے مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو کس طرح ایک چھوٹے سے مرکز میں رہنا پڑے گا اور کس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اے ایم یو طلباء کا حراستی مرکز یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے سابق صدر فیض الحسن نے بتایا کہ اس حراستی مرکز بنانے کا مقصد ہمارا لوگوں کو سی اے اے، این آر سی، اور این پی آر کے بعد پیش آنے والے حالات سے روبرو کرانا ہے۔
عوام کو ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے ذریعے لائے گئے شہریت ترمیمی قانون کے بعد ملک کے لوگوں کی کیا حالت ہونے والی ہے اور کس طریقے سے وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہیں گے جہاں پر ان کو کے پاس کچھ بھی کرنے کے لیے نہیں ہوگا۔
یونیورسٹی کے طالب علم تعظیم نے بتایا 15 دسمبر کی رات کو پولیس نے میرے اوپر حملہ کیا جس میں میرے دونوں ہاتھ شدید زخمی ہوئے۔ ہماری لڑائی سی اے اے، این آر سی، این پی آر کے خلاف چل رہی ہے، لیکن وائس چانسلر نے 15 تاریخ کی رات کو پولیس کو اندر داخل کرا کر طلبہ پر حملہ کرایا جس کی وجہ سے ہم وائس چانسلر اور رجسٹرار کے استعفی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
یونیورسٹی قانون فیکلٹی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ 'سی اے اے
آئین کے خلاف ہے، شہریت ترمیمی قانون آرٹیکل 14 ،15 اور 21 کی خلاف ورزی ہے'۔