ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پنشن ہولڈرز کو 50 فیصد پنشن دیئے جانے کی وجہ سے پنشنرز اچانک مشکلات میں گھِر گئے ہیں۔
اے ایم یو کے پینشن ہولڈرز پریشان ریٹائرڈ پروفیسرز کا کہنا ہے کس ایکٹ اور رول کے تحت بغیر کسی اطلاع کے پنشن کی رقم نصف کر دی گئی، اس پر وائس چانسلر کو غور و فکر کرنا چاہیے اور صدر جمہوریہ کو اس تعلق سے میمورنڈم بھی دیا جانا چاہیے۔
اے ایم یو کے ریٹائرڈ پروفیسر حامد علی نے کہا کہ گذشتہ برس 30 نومبر 2019 کو میں سبکدوش ہوا تھا اور مجھے یہ معلوم ہے کیونکہ میں خود بھی اس فہرست میں شامل ہوں جن کو آدھی پنشن ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہاں کا سینیئر پروفیسر، ڈائریکٹر، ڈین، چار مرتبہ شعبہ صدر اور اسٹاف ایسو سی ایشن کا دو مرتبہ صدر رہا۔ میں 1993 میں پروفیسر بنا تھا لیکن سینیئر پروفیسر کی یہاں کوئی وقعت نہیں ہے۔
ریٹائرڈ پروفیسر عارف الاسلام نے بتایا یہ بہت ہی حیرت انگیز معاملہ ہے اور اس تعلق سے نہ حکومت نے نہ ہی یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے سے بتایا کہ اس مرتبہ نصف پنشن دیں گے اور کیوں دیں گے؟ کس قانون کے تحت دیں گے؟ ہمارے اخراجات تو بڑھتے ہی جا رہے ہیں لیکن پنشن میں تخفیف کی جا رہی ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں تو یہ ہو رہا ہے کہ پچھلے دو سال سے متعدد پنشنرز کو کوئی گریچویٹی (Gratuity) نہیں ملی، پروفیسرز کو ریٹائرمنٹ والے دن ہی کم از کم 20 لاکھ روپیے مل جاتے تھے۔ میرا بھی کافی پیسہ بقایہ ہے، لیکن یونیورسٹی یہ کہتی ہے حکومت نے رقم ہی الاٹ نہیں کی تو آپ کو رقم کہاں سے دیں گے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں حکومت نے تو دے دیا ہے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کے اصل معاملہ کیا ہے کیوں کہ کوئی کچھ بتا بھی نہیں رہا۔
خیال رہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک سنٹرل یونیورسٹی ہے، ذرائع کے مطابق یونیورسٹی میں تقریباً 5000 پنشنرز اور 7000 تدریسی و غیر تدریسی عملہ ہے اور بجٹ میں تخفیف کیے جانے کی خبر ہے۔
ذرائع کے مطابق یونیورسٹی کے بجٹ میں تخفیف کر دی گئی ہے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ اگر سنٹرل یونیورسٹی کے بجٹ میں تخفیف کی خبر صحیح ہے تو پھر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔