حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا تعلق حضرت حسین اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان سے ہے۔ خواجہ صاحب کے والد کا نام حضرت خواجہ غیاث الدین چشتی ہے جو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں سے تھے، جبکہ آپ کی والدہ محترمہ حضرت ماہے امینو حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد سے ہیں۔
خواجہ غریب نواز نے پوری دنیا کو انسانیت کا پیغام دیا حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا اصل اسم مبارک حسن ہے۔ آپ کی عمر جب 6 برس ہوئی تو آپ کے والد حضرت خواجہ غیاث الدین دنیا کو الوداع کہہ گئے اور دنیا سے پردہ لے لیا۔ جب آپ کی عمر بارہ سال کی ہوئی تب آپ کی والدہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ والدین کا سایہ سر سے اٹھ جانا آپ کے لیے بے حد تکلیفدہ اور غم کا سبب بنا، آپ گم سم اور مایوس رہنے لگے۔ وراثت میں ملا باغ اور پنچکی آپ کی زندگی کی گزر بسر کا ذریعہ بنا۔
ایک روز آپ اپنے باغ میں پانی ڈال رہے تھے، تبھی ایک صوفی بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی رحمۃ اللہ علیہ کا وہاں سے گزر ہوا، انہیں دیکھتے ہی خواجہ صاحب نے اپنے باغ سے کھجور اور انگور کا ایک گچھا توڑ کر با ادب آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ غریب نواز کا یہ سلوک دیکھ کر حضرت ابراہیم قندوزی خوش ہو گئے اور اپنی جھولی سے ایک روٹی کا ٹکڑا نکال کر اپنے منہ میں چبایا اور خواجہ غریب نواز کو کھلا دیا۔
اس واقعہ کے بعد خواجہ صاحب نے اپنی پوری عمر اللہ کی راہ میں وقف کر دیں، باغ اور پن چکّی کو بھی فروخت کر اپنا مال غریبوں، مسکین میں تقسیم کردیا اور خود راہ خدا میں علم حاصل کرنے علاقہ بلخ- بخارا اور سمرقند چلے گئے۔
اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 32 سال کی عمر میں بغداد شریف پہنچے، جہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالی عنہ سے مرید ہوئے۔ اسی درمیان اپنے پیر کی خدمت میں رہتے ہوئے مدینہ منورہ میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری دی۔ اس دوران محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور سے آواز آئی "اے معین الدین ہمیں ہند سے محبت کی خوشبو آتی ہے" یہ بات خواجہ صاحب نے اپنے پیر مرشد کو بتائیں تب آپ کو بھارت جانے کا حکم ہوا۔ ملک عرب کی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے خواجہ غریب نواز اجمیر شریف تشریف لے آئے اور یہیں سے انسانیت اور بھائی چارہ کے ساتھ اسلام کا پیغام عام کیا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے چھ رجب 633 ہجری کو دنیا سے پردہ لے لیا۔ آپ کے وصال کے وقت آپ کی پیشانی "پر ھذا حبیب اللہ ومات فی حب اللہ" یعنی یہ اللہ کا حبیب ہے اور ان کا وصال اللہ ہی کی محبت میں ہوا ہے، لکھا ہوا تھا، آپ کی حیاتی میں رحمت الہی کی رضا سے خواجہ غریب نواز کی خدمت میں لوگ آتے رہے اور فیض پاتے رہے۔ یہی سلسلہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی خواجہ صاحب کے دربار میں آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے یہی وجہ ہے کی تمام مذاہب کے لاکھوں زائرین اجمیر شریف حاضری دینے پہنچتے ہیں۔
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے شروع کیا گیا خواجہ غریب نواز کا عرس مبارک کا آج 809 وا عرس منعقد کیا جا رہا ہے جس میں ملک بھر سے نہیں بلکہ برصغیر سے عقیدت مند شامل ہو رہے ہیں اور خواجہ غریب نواز کا روحانی فیض حاصل کر رہے ہیں۔