2002 کے گجرات فسادات (Gujarat Riots) کے دوران احمدآباد کی گلبرگ سوسائٹی (Gulbarg Society) کے بنگلہ نمبر 18 میں رہنے والے امتیاز خان پٹھان نے بتایا کہ ’میرے بنگلہ کے بازو ہی احسان جعفری کا مکان تھا اور اس وقت ہمارے ساتھ ان کی اہلیہ ذکیہ جعفری بھی تھیں۔ فسادیوں نے 69 افراد کو زندہ جلاکر ہلاک کردیا تھا۔ اس معاملہ میں انصاف کے حصول کےلیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ 2008 تک سپرم کورٹ میں ہماری لڑائی جاری رہی جس کے بعد ایس آئی ٹی کو تشکیل دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’بدقسمتی سے ایس آئی ٹی نے اس وقت کے وزیراعلی نریندر مودی سمیت 64 افراد کو اس معاملہ میں کلین چٹ دے دی، جسے ذکیہ جعفری نے سپریم کورٹ میں چلینج کیا ہے جس پر گزشتہ 7 دنوں سے سماعت جاری ہے۔ ذکیہ جعفری نے ایس آئی ٹی (SIT) پر ٹھیک سے تحقیق نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
امتیاز خان پٹھان نے کہا کہ ذکیہ جعفری کے وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 2002 کے فسادات کے دوران 69 افراد کو ہلاک کردیا گیا اور جانوروں کی طرح برتاؤ کیا گیا جبکہ ایسا ایک سازش کے تحت کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فسادات منصوہ بند تھے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازش رچی گئی تھی۔ کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ ایس آئی ٹی نے ٹھیک طرح سے تحقیقات نہیں کی ہے اور اس موقت کے وزیراعلیٰ کو کلین چٹ دی گئی تاہم ہم مانتے ہیں کہ نریندر مودی فرقہ وارانہ فسادات کےلیے ذمہ دار ہیں اور انہیں سزا ہونی چاہئے، اس کے علاوہ اور جو بھی ملزم ہیں ان کے خلاف بھی قانونی کاروائی کی جانی چاہئے۔ امتیاز خان پٹھان نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ سے انصاف کی امید ہے۔ ہم سپریم کورٹ سے ایس آئی ٹی سے دوبارہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔