اسلام آباد: پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری ہر گزر تے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔ ہر دس سے پندرہ دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسوں کے نفاذ نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ ملک پر منڈلاتے معاشی بحران نے عام آدمی کو نہ صرف اپنے طرز زندگی اور حالاتِ زندگی پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کیا ہے، بلکہ روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی جد جہد کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
ملک کے ایک اعلیٰ مینوفیکچرنگ کمپنی میں کام کرنے والے سول انجینئر موسیٰ مستقل ملازم تھا اور گذشتہ پانچ برسوں سے ملازمت کر رہا تھا۔ تاہم حکومت کی جانب سے درآمدات پر پابندی اور کاروباری شعبوں کے لیے تمام ایل سیز (لیز کریڈٹ) کو روکنے کے ساتھ زیادہ تر مینوفیکچرنگ کمپنیاں اپنے پلانٹ بند کرنے اور ہزاروں ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات کے لیے درآمدی سامان پر انحصار کرتی ہیں۔ موسیٰ کا شمار ان ملازمین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی فائیو فیگر تنخواہ والی ملازمتیں کھو دیں۔ وہ صنعتی پلانٹس کی بندش کا بھی شکار ہوئے۔
موسیٰ نے کہا کہ وہ وہاں مستقل ملازم تھا۔ لیکن حکومت کی طرف سے درآمدات پر مکمل پابندی کی وجہ سے پلانٹ بند ہو گئے اور ان کی نوکری چلی گئی۔ پانچ افراد پر مشتمل ان کا خاندان ہے (بیوی اور تین بچے) اور وہ گھر میں اکیلے کمانے والا شخص ہیں اور اب ان کی نوکری چلی گئی ہے۔
موسیٰ نے کہاکہ ان کی بیٹی بیمار ہے اور اسے خصوصی علاج اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ اب سب کچھ بکھر گیا ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ اب کیا کرنا ہے۔ پاکستان میں اب نوکریاں نہیں ہیں۔