نئی دہلی: دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ افراط زر کی چپیٹ میں ہے، جس کی وجہ سے امریکی فیڈرل ریزرو پر پالیسی شرحوں میں اضافہ کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ فیڈرل ریزو میں پالیسی شرحوں میں اضافے کی وجہ سے بھارت، یورپ، کینیڈا اور دیگر ممالک کے مرکزی بینک بھی پالیسی شرحوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہے۔ امریکی خوردہ افرط زر کے اعداد و شمار اگلے ہفتے جاری کیے جانے کی توقع ہے، لیکن اس سے قبل سینیٹ کمیٹی کی سماعت میں امریکی فیڈ ریزو کے چیئرمین جیروم پاول کے تبصروں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یو ایس فیڈ کے چیئرمین جیروم پاول کے تبصروں نے اشارہ کیا کہ امریکی مرکزی بینک رواں ماہ کے آخر میں بینک کی میٹنگ میں پالیسی ریٹ میں 50 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر سکتا ہے۔ تاہم یو ایس سنٹرل بینک اس ماہ جاری کیے جانے والے دو اہم ڈیٹا سیٹس کا نوٹس لے گا - افراط زر کا ڈیٹا 14 مارچ کو جاری کیا جائے گا اور فروری کے لیے روزگار کا ڈیٹا آج (10 مارچ) کے بعد جاری کیا جائے گا۔
US Inflation امریکہ میں بڑھتی مہنگائی بھارت سمیت متعدد ممالک پر اثرانداز
امریکی افراط زر کی وجہ سے بھارت، یورپ، کینیڈا اور دیگر ممالک کے مرکزی بینک بھی امریکی پالیسی کی شرحوں کے ساتھ پالیسی شرحوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا (RBI) اب تک امریکی پالیسی ریٹ میں اضافے کے ساتھ شرحوں میں اضافے کی پیروی کر رہی ہے، حالانکہ سست اقتصادی ترقی کو سپورٹ کرنے کے لیے اضافے کی مقدار مختلف ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ 1934 کے سیکشن 45 زیڈ اے کے تحت آر بی آئی مرکزی حکومت کے ذریعہ مقرر کردہ ہدف کے تحت خوردہ افراط زر کو برقرار رکھنے کی قانونی ذمہ داری کے تحت ہے۔ جہاں یو ایس فیڈرل ریزرو نے ایک برس سے بھی کم عرصے میں امریکہ میں پالیسی ریٹ کو صفر سے بڑھا کر 5 فیصد کے قریب کر دیا ہے، وہیں ریزرو بینک آف انڈیا نے ریپو ریٹ میں اضافہ کیا ہے، جس شرح پر بینک مختصر مدت کے لیے قرض لیتے ہیں اس میں گذشتہ برس مئی سے اب تک 250 بیس پوائنٹس کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔
اس کے نتیجے میں انفرادی قرض دہندگان جو مکان، گاڑی خریدنے یا دیگر نجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں اور کاروباری سرمائے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں نہیں اضافی شرح سود دینا پڑ رہا ہے۔ مستقبل قریب میں شرح سود میں کمی کی کوئی توقع نہیں ہے۔