مرکزی حکومت کی مبینہ عوام مخالف معاشی پالیسیوں اور مخالف مزدور پالیسیوں کے خلاف سنٹرل ٹریڈ یونینس (سی ٹی یوز) اور بیشتر آزادانہ ٹریڈ یونینس کی جانب سے کی گئی مشترکہ اپیل پر تقریباً چار لاکھ بینک ملازمین نے دوسرے دن بھی عام ہڑتال میں حصہ لیا Bank Employees Protest Against Government Policies۔ آل انڈیا بینک ائمپلائز ایسوسی ایشن (اے آئی بی ای اے) نے اس ہڑتال کی حمایت کا فیصلہ کیا اور بینکنگ شعبہ کے مطالبات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس ہڑتال میں شمولیت اختیار کی۔
اے آئی بی ای اے کے جنرل سکریٹری سی ایچ وینکٹ چلم نے اپنے پریس ریلیز میں کہا کہ عوامی شعبہ کے بینکس، پرائیویٹ بینکس، فارین بینکس، ر یجنل رورل بینکس اور کواپریٹیوبینکس نے اس ہڑتال میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ اطلاع کے مطابق سدرن گرڈ جو چینئی سے کام کرتا ہے ہڑتال کی وجہ متاثر رہا اور آج تقریبا 6 لاکھ چیکس جن کی مالیت 5000 کروڑروپے ہے کلیر نہیں کیے جاسکے، کیونکہ بینکس کی برانچس ہڑتال کی وجہ سے کام نہیں کرپائیں۔'
قومی سطح پر تقریباً 20 لاکھ چیکس جن کی مالیت 18000کروڑروپے ہے بھی کلیر نہیں ہوسکے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ قومی سطح پر بینک خدمات متاثر ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ نئی آزادانہ معاشی پالیسیوں کے نام پرمرکزی حکومت ایسی پالیسیوں کو نافذکررہی ہے جس سے امیر افراد کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور عام غریب آدمی اس سے متاثر ہورہا ہے۔'
انہوں نے کارپوریٹس کو دی گئی رعایتوں کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ کارپوریٹس کو رعایتیں دی جارہی ہیں تاہم عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنایاجارہا ہے۔ یہاں تک کہ کورونا کے وقت میں حکومت نے امیر طبقہ کو کئی طرح کی رعایتیں دیں اور غریبوں کو ان کی ملازمتوں اور ذریعہ معاش سے محروم کیا گیا۔ معیشت کی سست روی جاری ہے تاہم اس کو صحیح سمت لانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ سرمایہ نکاسی، نجی کاری پالیسی کا اہم حصہ بن گئے ہیں جس کے ذریعہ ہر عوامی شعبہ کی نجی کاری ہورہی ہے اور اس کو پرائیویٹ شعبہ کے حوالے کیاجارہا ہے۔'