اردو

urdu

انٹرنیٹ پر ہر کسی کے لیے کام دستیاب ہے

امریکہ، چین، برازیل اور جاپان کے بعد بھارت ایسا ملک ہے جو فلیکسی اور فری لانسر کیلئے کام دستیاب ہے ۔آئی ایف ایس کے مطابق فلیکسی ورکروں کی تعداد ہریانہ، مدھیہ پردیش، کرناٹک، آندھرا پردیش، گجرات اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں بڑھ سکتی ہے ۔ایک حالیہ جائزے کے مطابق 70 فیصد کمپنیوں نے کسی نہ کسی وقت اپنے پروجیکٹوں میں گگ ورکروں کی خدمات حاصل کی ہیں۔

By

Published : Feb 27, 2020, 3:19 PM IST

Published : Feb 27, 2020, 3:19 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 6:21 PM IST

انٹرنیٹ کے پاس ہر کسی کے لیے کام ہے
انٹرنیٹ کے پاس ہر کسی کے لیے کام ہے

ایک زمانہ تھا جب ہمارے گھر میں کوئی سامان خراب ہو جاتا تھا تو ہم اس کی مرمت کیلئے سڑک کے کنارے کسی پلمبر یاالیکٹرشن کو بلا لیتے ۔لیکن اب ہم اربن 'کلیپ جسٹ، ڈائل یا سلیکھا' آن لائن سے رابطہ کرکے پیشہ واروں کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔آج کل تو ترکھان اور نوکرانیوں تک کی خدمات آن لائن حاصل کی جا سکتی ہیں ۔

ماضی میں کار اور ڈرائیور کو بھیجنا پڑتا تھا جب ہمیں شہر سے باہرجانے کیلئے کسی ٹریول ایجنٹ سے رابطہ کرنے کی ضرورت پڑتی تھی لیکن اب ہمارے سمارٹ فونز میں ایک بٹن دبانے سے اولا اور اوبیر کی خدمات آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

سویگی اور زومیٹو جیسے آن لائن ڈائن سے اب منٹوں میں آپ کے گھروں کی دہلیز پر کھانا پہنچاتے ہیں ۔یہ سب کچھ انٹرنیٹ کی دستیابی سے ممکن ہو ا ہے ۔

امریکہ میں جو لوگ ایک مخصوص وقت کیلئے آن لائن پلیٹ فارمز پر کام کرتے ہیں انہیں 'گگ ورکرس' کہا جاتا ہے۔حتی کہ بھارت میں بھی گگ ورکرس کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کی سپلائی اور فوڈ انڈسٹریز میں مانگیں بڑھ رہی ہیں۔

گھروں میں کھانا پہنچانے کی آن لائن کمپنی 'سویگی' جس کے پاس پہلے سے ہی 2 لاکھ 10 ہزار ڈیلیوری پارٹنرز موجود ہیں، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ یہ تعداد جلد ہی پانچ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔

ایک مطالعہ کے مطابق 15 لاکھ ڈرائیور اس وقت اولا اور اوبیر جیسی کمپنیوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور صرف ڈرائیورز اور ترکھانوں جیسے کم ہنر والے افراد ہی نہیں بلکہ اعلی پیشہ ور افراد بھی کنٹریکٹ پر آن لائن پلیٹ فارمز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ایسے پیشہ ور جو کسی پروجیکٹ کی معیاد کے دوران پارٹ ٹائم بنیادوں پر کام کرتے ہیں انہیں 'فلیکسی' یا 'فری لانسر' ورکر کہا جاتا ہے۔ ٹی سی ایس، انفوسسز، وپرو اور ایچ سی ایل جیسی بڑی کمپنیاں ان فلیکسی ورکز کی خدمات مصنوعی ذہانت، آرکیٹکچر، آٹو مشن اور انالیٹکس جیسے مسابقتی شعبوں میں حاصل کررہی ہے۔

انڈین اسٹافنگ فیڈریشن( آئی ایس ایف)کے تخمینوں کے مطابق آئی ٹی اور آئی ٹی ای ایس سیکٹروں میں سنہ 2018 میں 5 لاکھ ورکروں نے کام کیا تھا لیکن یہ تعداد سنہ 2021 تک دوگنی ہوجائے گی۔آئی ایس ایف کے مطابق بھارت میں تمام شعبوں میں گگ اور فلیکسی کی تعداد 33 لاکھ ہے جو سنہ 2021 تک 61 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ان میں سے 55 فیصد بیکنگ، انشورنس، آئی ٹی ااور آئی ٹی ای ایس سیکٹروں میں کام کررہے ہیں۔

امریکہ، چین، برازیل اور جاپان کے بعد بھارت ایسا ملک ہے جو فلیکسی اور فری لانسر کیلئے کام دستیاب ہے ۔آئی ایف ایس کے مطابق فلیکسی ورکروں کی تعداد ہریانہ، مدھیہ پردیش، کرناٹک، آندھرا پردیش، گجرات اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں بڑھ سکتی ہے ۔ایک حالیہ جائزے کے مطابق 70 فیصد کمپنیوں نے کسی نہ کسی وقت اپنے پروجیکٹوں میں گگ ورکروں کی خدمات حاصل کی ہیں۔

عالمی سطح پر گگ مارکیٹ کا حجم سنہ 2018 میں 20 ہزار 400کروڑامریکی ڈالر تھا جس میں سپلائی خدمات کا اشتراک 50 فیصد تھا ۔سنہ 2023 تک گگ مارکیٹ کا حجم 45 ہزار 500 کروڑ امریکی ڈالر تک بڑھ سکتا ہے۔بھارت میں فری لانسر مارکیٹ سنہ 2025 تک 3000 کروڑ امریکی ڈالر ( 2 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ سکتا ہے۔دنیا میں آج ہر چار میں سے ایک فری لانسر بھارتی ہے۔

اسٹارٹ اپ کلچر کی وجہ سے حالیہ برسوں میں گگ ورکز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ وہ کم اجرت پر کام کرتے ہیں۔پئے پل کے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک قابل فری لانسر ایک برس میں 20 سے 60 لاکھ روپے کما سکتا ہے، لیکن سبھی گگ ورکز اتنا کما نہیں سکتے ہیں۔صرف وہ جن کے پاس تکنیکی ہنر ہیں وہی اتنی خطیر رقم کما سکتے ہہیں۔انہیں موبائل اور ویب ڈیزائنگ، انٹرنیٹ ریسرچ اور ڈاٹا انٹری جیسے شعبوں میں کام لیتا ہے۔

تخلیقیت، تکنیکی ہنر نہیں ہونے کا متبادل ثابت ہوسکتی ہے، تاکہ کچھ پارٹ ٹائم کام مل سکے۔کوئی نیوز اور آرٹیکلز لکھ کر، کوئی آن لائن ڈانس اور میوزک کلاس کی شروعات کرکے اچھی کمائی حاصل کرسکتا ہے۔

اس میں سچائی ہے کہ گگ ورکز کو جاب سکیورٹی، ایک مستقبل کمائی اور ریٹائرمنٹ کے بعد فل ٹائم ورکز جیسے فوائد حاصل نہیں ہوتے ہیں۔لیکن موجودہ دور میں جب نوکری حاصل کرنا تقریبا نا ممکن بن گیا ہے۔بے روزگاروں کے لیے 'گگس' کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔گگس میں کام میں لچھ کے علاوہ فری لانسر کی سہولت کے مطابق کام دیا جاسکتا ہے یا واپس لیا جاسکتا ہے۔یہ کمائی کا اضافی ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

سویگی، زومیٹو، اول اور اوبیرکے ساتھ کام کرنے والوں میں سے اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے ۔وہ اپنی کچھ کمائی بچا کر گاؤں میں اپنے گھروں کو بھیج دیتے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ قرضہ پر گاڑیاں خرید لیتے ہیں اور پھر ان گاڑیو ں کو اوبیر اور اولا کو لیز پر دیتے ہیں، لیکن ماہانہ قسط گاڑیوں کی دیکھ ریکھ پر آرہے خرچہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس عوض میں انہیں جو پیسے ملتےہیں وہ زیادہ نہیں ہیں۔سنہ 2018 میں اولا اور اوبیر کے ڈرائیوروں نے کم اجرت ملنے کی وجہ سے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔

فری لائنسر زیادہ سے زیادہ کمائی حاصل کرنے کیلئے کام بدلتے رہتے ہیں ۔ان کی ان کاوشوں میں انہیں ڈیجیٹل پلیٹ فارموں سے حمایت ملتی ہے ۔سیلز اینڈ مارکیٹنگ شعبہ سے وابستہ افراد کی تمام سیکٹروں میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہو تی ہے ۔سیلز افراد کو زیادہ تر بینکنگ، فائنانس، انشورنس، ایف ایم سی جی اور فارمیسی سیکٹر میں کام ملتا ہے ۔ان میں سے غالب اکثریت نوجوانوں کی ہے جو اپنے دو پہیوں والی سوار ی پر گھروں میں جاکر بکری کرتے ہیں ۔20 سے 29سال کے ان نوجوانوں کو دوسرے گگس میں بھی کام مل رہا ہے

اس بات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے کہ سیلز افراد کا 20 سے 45 فیصد سیلز سیکٹر میں کام کرنے کے بعد گگس کی جانب رخ کرتے ہیں۔میشن لرننگ اور مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئےڈیجیٹل کمپنیاں فری لانس کام کے لیے اچھا اور ہنر مند درخواست دہندگان کی درخواستوں کی ابتدائی جانچ پڑتال کی، جنہوں نے انفوسسز، ایکسز بینک اور اولا سمیت 11 کمپنیوں میں عارضی ملازمت کیلے درخواستیں دی تھی۔ماضی میں کسی بھی درخواست دہندہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں کئی دن لگ جاتے تھے، لیکن اب ٹیکنالوجی کی وجہ سے کچھ منٹوں میں ہی ساری معلومات حاصل کی جاسکتی ہے۔

بھارت کا نوجوان مستقل ملازمت کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ٹیکنالوجی میں جدیدیت آنے کے ساتھ ہی منظم سیکٹر میں ملنے والی نوکریاں غیر منظم بنتی جاری ہے۔

عارضی بنیادوں پر کام لیے جانے والوں کی کوئی چھٹی نہیں ہوتی ہے، انہیں اوور ٹائم کے لیے پیسے تو ملتے ہیں لیکن ان کے پاس نہ ہی ہیلتھ انشورنس یا جاب سکیورٹی ہوتی ہے۔موجودہ لیبر قوانین میں فری لانسنگ کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں کمپنیاں اپنے اخراجات کو کم کرنے کے لیے عارضی بنیادوں پر لوگوں کو کام کے لیے رکھتی ہیں۔

لوک سبھا میں 11 دسمبر 2019 میں 'کوڈ آف سوشل سکیورٹی' متعارف کروایا تھا، جس کا مقصد معاہدے پر کام کرنے والوں کی حالت میں بہتری لانا ہے۔اس کوڈ میں معاہدوں میں کام کرنے والوں کے علاوہ گگ ورکرز کو پلیٹ فارم ورکر قرار دیا گیا ہے، جو آن لائن فوڈ اور کیب کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

مرکزی حکومت نے کمپنیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ان ورکرز کو لائف ہیلتھ اور حادثہ انشورنش فراہم کرے۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ ان کے لے ایک سوشل سکیورٹی فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا، لیکن یہ ایک بڑی غلطی ہوگی اگر اس کوڈ میں کم اجرتوں، چھٹیاں، بیماری کی چھٹی جیسی باتوں کو نظر انداز کیا جائے گا۔

امریکہ کی ایک ریاست کیلیفورنیا میں ایک بل پاس کی گئی ہے، جس میں اوبیر اور دیگر کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والوں سے اپنے عام ورکز جیسا ہی سلوک کریں۔یوروپی یونین نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے، جس میں ایک گگ ورکرز کو کم سے کم حقوق تفویض کیے گئے ہیں۔انڈین سوشل سکیورٹی کوڈ کو ان دو مثالوں سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔

قصبوں اور بڑے شہروں میں گھریلو خواتین بھی زومیٹو اور سویگی کو اپنی خدمات آوٹ سورس کرکے اچھی خاصی کمائی حاصل کرتی ہیں۔ایپس جیسے کہ نانی گھر، ہوم فوڈی اور کری فل کھانے کے شوقین افراد کی ضرورتوں کو پورا کررہی ہیں۔ان ایپس کی مدد سے خواتین اپنے رسوئی گھر کو آن لائن بزنس سے جوڑ رہی ہیں۔

کری فل کے بانی بین میتھو سنہ 2022 تک 'کیچن ٹو کلاوڈ' پروجیکٹ کے ساتھ دس لاکھ گھریلو خواتین کو منسلک کرنا چاہتے ہیں۔ریبل فوڈ جس کو سنہ 2012میں شروع کیا گیا تھا وہ اب 301 کلاؤڈ کیچن چلا رہا ہے ااور 2200 آن لائن فوڈ ڈیلیوری ریستورانوں کو کھانا پہنچا رہا ہے۔

بھارت میں کلاؤڈ کیچن کا حجم ایک سو کروڑ روپے تک بڑھانے کا امکان ہے۔سویگی بھارت کا کھانا فراہم کرنے کا بڑا اسٹارٹ اپ نے پہلے ہی ایک ہزار کلاؤڈ کیچن قائم کیے ہیں اور ان کے رکھ رکھاؤ کے لیے 250 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 6:21 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details