صدر کے عہدے کے لئے منتخب ہوجانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ سب کچھ کیا جو ایک لیڈر کو نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے ایک ساتھ دونوں حریف اور حلیف ممالک کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑ دی۔ سرمایہ داروں اور کارپوریٹ کے لئے ٹیکس کی شرح گھٹا دی۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسا کرنے سے یہ کارپوریٹ ادارے نئی سرمایہ کاری کریں گے اور تجارت کو وسعت دیں گے، جس کے نتیجے میں امریکی عوام کے لئے روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوجائیں گے۔ ٹرمپ کے ان اقدامات کے بارے میں اعتدال پسند ماہرین اقتصادیات کی رائے صحیح ثابت ہو رہی ہے جن پیش گوئیوں کو ٹھکرا دیا گیا تھا۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ امریکہ کی اقتصادیات اب ایک نئی شکل اختیار کر رہی ہے اور ترقی کی راہ پر جارہی ہے۔
امریکہ میں بے روز گاری کی شرح 3.5فی صد ہے، جو گزشتہ پچاس سال میں سب سے کم ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اب امریکہ میں ہر شخص روزگار ہے۔ ان دنوں مجرمانہ سرگرمیوں کے مرتکب لوگ اور معذور بھی امریکہ میں نوکریاں حاصل کر پارہے ہیں۔ اس سب کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ صدارتی انتخاب جیتنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کی بنیاد اُن کے اس دعوے پر ہے کہ ٹیکس کی شرح میں کمی کے نتیجے میں کارپوریٹ سیکٹر کی تجارت کو وسعت ملے گی، اس کے نتیجے میں روز گار کے نئے مواقع میسر ہوجائیں گے اور پھراس ترقی کا پھل عملی طور پر سماج کے پسماندہ طبقوں تک پہنچے گا۔حالانکہ ان کے اس دعوے کے ساتھ اختلاف رائے کی گنجائش ہے۔
ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ٹیکس کی شرح میں کمی کئے جانے کے نتیجے میں کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوگیا ہے۔ جبکہ ان کمپنیوں میں سے محض بیس فیصد نے روز گار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی ہے۔کئی دیگرجائزوں سے بھی پتہ چلا ہے کہ بچی ہوئی رقومات کا پچاس فیصد کمپنیوں کے حصہ داروں کے کھاتے میں جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے منافع کا بڑا حصہ ان کمپنیوں کے منتظمین کو دے رہے ہیں جبکہ چھوٹے ملازمین کو اس میں سے برائے نام حصہ دیا جارہا ہے۔
ایک اور تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکس میں کمی کے نتیجے میں کمپنیوں کو ہونے والی بچت کا صرف چھ فیصد تنخواہوں میں اضافہ کرنے پر خرچ کیا جارہا ہے ۔اسی طرح کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ تنخواہوں میں اضافے پر ٹیکس بچت کا بیس فیصد خرچ کیا جارہا ہے۔جبکہ ایک اور تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ سال 1978 سے سال 2018 کے درمیان چیف ایگزیکٹو افسران ( سی ای اوز) کی تنخواہوں میں 940فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے جبکہ ایک عام ملازم کی تنخواہ میں اس عرصے کے دوران محض 12فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب جی ڈی پی میں حکومت کا مالیاتی خسارہ 144فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ پالیسی مرتب کرتے ہوئے مارگیٹ تھیچر اور رونالڈ ریگن کی پالیسوں کی نقل کررہے ہیں۔ لیکن ماہرین اقتصادیات متنبہ کررہے ہیں کہ اس طرح کی پالیسیاں تباہ کن ثابت ہوجائیں گی جبکہ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے انتخابی کامیابی حاصل ہوجائے گی ۔
حکومت ہند نے بھی موجودہ سیاسی اور اقتصادی صورتحال کی وجہ سے ٹیکس میں کٹوتی کی راہ اختیار کرلی ہے۔ گزشتہ سال کارپوریٹ ٹیکس کو 30سے گھٹا کر 22فیصدکردیا گیا تھا۔اب نئی صنعتوں کو صرف 15فیصد ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکس میں اس طرح کی کٹوتی سے نئی سرمایہ کاری متوقع ہے۔لیکن یہاں پر امریکہ اور بھارت کے درمیان فرق کو باریکی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔مغربی ممالک کی کمپنیاں عام طور سے اپنی دولت سے اپنے ہی ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس طرح سے وہ اپنے ممالک کی ترقی میں تعاون دیتے ہیں۔جبکہ بھارت کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔
یہاں غریبوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا ہے ۔ البتہ دولت کو اکھٹا کرنے اور اسے کالے دھن میں تبدیل کرنے کا رواج ہے۔اوکسفام نے تخمینہ لگایا ہے کہ یہاں قوم کی 73فیصد دولت محض ایک فیصد آبادی کے قبضے میں ہے۔ اوکسفام 19 خود مختار خیراتی اداروں پر مشتمل ہے، جو عالمی غربت کے خاتمے کے لئے کام کررہی ہے۔
سال 2018 میں بھارت کے 67کروڑ ٖغریب آبادی کی دولت میں محض ایک فیصد کا اضافہ ہوا۔ جبکہ سال 2006 سے سال 2015 کے دوران امیر طبقے کی ایک فیصد دولت میں 21لاکھ کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔یہ رقم سال 2017 کے مرکزی بجٹ کے برابر ہے۔
سال 2006 سے سال 2015 تک عام مزدور کی آمدنی میں محض دو فیصد سالانہ اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ امیروں کی دولت میں چھ گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ آمدنی میں یہ عدم مساوت کم کرنے کے لئے اوکسفام نے سفارش کی ہے کہ کمپنیاں اپنے حصہ داروں کو دیئے جانے والے نفع میں کٹوتی کرے اور اس کے بجائے عام ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔اس کا کہنا ہے کہ کمپنی کے سربراہوں اور اسکے ملازمین کی تنخواہوں میں بیس فیصد سے زیادہ کی تفاوت نہیں ہونی چاہیے۔