اردو

urdu

ETV Bharat / business

سماجی سطح پر عدم مساوات، آمدنی میں بھاری تفاوت کا شاخسانہ - بھارت میں آمدنی میں عدم مساوات

مرکزی حکومت نے بھی امریکی حکومت کے طرز پر ٹیکس کی شرح میں کمی کی ہے کیونکہ ٹیکس میں کٹوتی سے نئی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ لیکن یہ فرق سمجھنا ضروری ہے کہ مغربی ممالک کی کمپنیاں عام طور سے اپنی دولت سے اپنے ہی ممالک میں سرمایہ کاری کرکے اپنے ملکوں کی ترقی میں تعاون دیتے ہیں لیکن بھارت کی صورتحال بالکل برعکس ہے۔

سماجی سطح پر عدم مساوات،  آمدنی میں بھاری تفاوت کا شاخسانہ
سماجی سطح پر عدم مساوات، آمدنی میں بھاری تفاوت کا شاخسانہ

By

Published : Feb 18, 2020, 7:05 PM IST

Updated : Mar 1, 2020, 6:23 PM IST

صدر کے عہدے کے لئے منتخب ہوجانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ سب کچھ کیا جو ایک لیڈر کو نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے ایک ساتھ دونوں حریف اور حلیف ممالک کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑ دی۔ سرمایہ داروں اور کارپوریٹ کے لئے ٹیکس کی شرح گھٹا دی۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسا کرنے سے یہ کارپوریٹ ادارے نئی سرمایہ کاری کریں گے اور تجارت کو وسعت دیں گے، جس کے نتیجے میں امریکی عوام کے لئے روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوجائیں گے۔ ٹرمپ کے ان اقدامات کے بارے میں اعتدال پسند ماہرین اقتصادیات کی رائے صحیح ثابت ہو رہی ہے جن پیش گوئیوں کو ٹھکرا دیا گیا تھا۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ امریکہ کی اقتصادیات اب ایک نئی شکل اختیار کر رہی ہے اور ترقی کی راہ پر جارہی ہے۔

امریکہ میں بے روز گاری کی شرح 3.5فی صد ہے، جو گزشتہ پچاس سال میں سب سے کم ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اب امریکہ میں ہر شخص روزگار ہے۔ ان دنوں مجرمانہ سرگرمیوں کے مرتکب لوگ اور معذور بھی امریکہ میں نوکریاں حاصل کر پارہے ہیں۔ اس سب کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دوبارہ صدارتی انتخاب جیتنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔

ٹرمپ کی پالیسیوں کی بنیاد اُن کے اس دعوے پر ہے کہ ٹیکس کی شرح میں کمی کے نتیجے میں کارپوریٹ سیکٹر کی تجارت کو وسعت ملے گی، اس کے نتیجے میں روز گار کے نئے مواقع میسر ہوجائیں گے اور پھراس ترقی کا پھل عملی طور پر سماج کے پسماندہ طبقوں تک پہنچے گا۔حالانکہ ان کے اس دعوے کے ساتھ اختلاف رائے کی گنجائش ہے۔

ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ٹیکس کی شرح میں کمی کئے جانے کے نتیجے میں کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوگیا ہے۔ جبکہ ان کمپنیوں میں سے محض بیس فیصد نے روز گار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی ہے۔کئی دیگرجائزوں سے بھی پتہ چلا ہے کہ بچی ہوئی رقومات کا پچاس فیصد کمپنیوں کے حصہ داروں کے کھاتے میں جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے منافع کا بڑا حصہ ان کمپنیوں کے منتظمین کو دے رہے ہیں جبکہ چھوٹے ملازمین کو اس میں سے برائے نام حصہ دیا جارہا ہے۔

ایک اور تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکس میں کمی کے نتیجے میں کمپنیوں کو ہونے والی بچت کا صرف چھ فیصد تنخواہوں میں اضافہ کرنے پر خرچ کیا جارہا ہے ۔اسی طرح کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ تنخواہوں میں اضافے پر ٹیکس بچت کا بیس فیصد خرچ کیا جارہا ہے۔جبکہ ایک اور تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ سال 1978 سے سال 2018 کے درمیان چیف ایگزیکٹو افسران ( سی ای اوز) کی تنخواہوں میں 940فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے جبکہ ایک عام ملازم کی تنخواہ میں اس عرصے کے دوران محض 12فیصد اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب جی ڈی پی میں حکومت کا مالیاتی خسارہ 144فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ پالیسی مرتب کرتے ہوئے مارگیٹ تھیچر اور رونالڈ ریگن کی پالیسوں کی نقل کررہے ہیں۔ لیکن ماہرین اقتصادیات متنبہ کررہے ہیں کہ اس طرح کی پالیسیاں تباہ کن ثابت ہوجائیں گی جبکہ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے انتخابی کامیابی حاصل ہوجائے گی ۔

حکومت ہند نے بھی موجودہ سیاسی اور اقتصادی صورتحال کی وجہ سے ٹیکس میں کٹوتی کی راہ اختیار کرلی ہے۔ گزشتہ سال کارپوریٹ ٹیکس کو 30سے گھٹا کر 22فیصدکردیا گیا تھا۔اب نئی صنعتوں کو صرف 15فیصد ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹیکس میں اس طرح کی کٹوتی سے نئی سرمایہ کاری متوقع ہے۔لیکن یہاں پر امریکہ اور بھارت کے درمیان فرق کو باریکی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔مغربی ممالک کی کمپنیاں عام طور سے اپنی دولت سے اپنے ہی ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس طرح سے وہ اپنے ممالک کی ترقی میں تعاون دیتے ہیں۔جبکہ بھارت کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔

یہاں غریبوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا جارہا ہے ۔ البتہ دولت کو اکھٹا کرنے اور اسے کالے دھن میں تبدیل کرنے کا رواج ہے۔اوکسفام نے تخمینہ لگایا ہے کہ یہاں قوم کی 73فیصد دولت محض ایک فیصد آبادی کے قبضے میں ہے۔ اوکسفام 19 خود مختار خیراتی اداروں پر مشتمل ہے، جو عالمی غربت کے خاتمے کے لئے کام کررہی ہے۔

سال 2018 میں بھارت کے 67کروڑ ٖغریب آبادی کی دولت میں محض ایک فیصد کا اضافہ ہوا۔ جبکہ سال 2006 سے سال 2015 کے دوران امیر طبقے کی ایک فیصد دولت میں 21لاکھ کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔یہ رقم سال 2017 کے مرکزی بجٹ کے برابر ہے۔

سال 2006 سے سال 2015 تک عام مزدور کی آمدنی میں محض دو فیصد سالانہ اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ امیروں کی دولت میں چھ گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ آمدنی میں یہ عدم مساوت کم کرنے کے لئے اوکسفام نے سفارش کی ہے کہ کمپنیاں اپنے حصہ داروں کو دیئے جانے والے نفع میں کٹوتی کرے اور اس کے بجائے عام ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔اس کا کہنا ہے کہ کمپنی کے سربراہوں اور اسکے ملازمین کی تنخواہوں میں بیس فیصد سے زیادہ کی تفاوت نہیں ہونی چاہیے۔

امریکہ میں دولت مند تجارت کو وسعت دیتے ہیں اور نئے پروجیکٹوں کی شروعات کرتے ہیں۔ اگر ان نئے شروع ہونے والے پروجیکٹوں میں صرف پانچ فیصد ہی کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے بھی اقتصادی خوشحالی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔فیس بک اور اوبرجیسی معروف کمپنیوں کو ابتدا میں ایسے سرمایہ کاروں نے فنڈنگ کی تھی ۔

اس کے علاوہ امریکہ میں کمپنیوں کے شیئر کو ملازمین کی تنخواہوں کے بطور بھی دیا جاتا ہے۔بھارت میں انفوسیس جیسی چند ہی کمپنیاں اس طرح کی روایت پر چلتی ہیں۔رتن ٹاٹا کا نئے پروجیکٹوں کے لئے سرمایہ کاری کرنے والوں میں شامل ہوجانا ایک خوش آئند بات ہے۔امیر لوگوں کے ظاہر کردہ اثاثے ان کے اصل اثاثوں سے بہت کم ہوتے ہیں۔اس طرح کے چھپائے گئے اثاثے سیاسی فنڈنگ ، سینما بزنس، جائدادوں کی خرید و فروخت اور اس طرح کی دوسری قسم کی تجارت میں استعمال کی جاتی ہے۔یہ پیسہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔

سال 2014ء میں کئے گئے ایک مخفی سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ دولت مندوں کا 90سے 97فیصد کا کالا دھن بھارت کے مالی نظام میں جھونکا جارہا ہے۔ اگرچہ مودی حکومت نے پانچ اور ہزار روپے نوٹ بند کئے لیکن یہ اقدام بھی منی لانڈرنگ کو نہیں روک سکا۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں تمام صنعتی شعبوں میں روز گار کے ذرائع کم ہوگئے ۔

نقدکرنسی کی ریل پیل میں کمی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کمزور ہوگئی ۔اشیاء کی کھپت تب تک نہیں بڑھ سکتی ، جب تک تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوتااور جب تک اشیاء کی کھپت میں اضافہ نہیں ہوجاتا نئی صنعتیں قائم نہیں ہوسکتی ہیں۔وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے اسی صورتحال کے پیش نظر کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی کی ۔تاہم اس اقدام کے نتائج دیکھنا ابھی باقی ہے۔

اگرچہ بعض لوگوں کو اُمید تھی کہ نئے بجٹ میں ذاتی انکم ٹیکس کی شرح کم کی جائے گی اور اس کے نتیجے میں نقدکرنسی کی ریل پیل بڑھ جائے گی لیکن بجٹ میں اس طرح کا اقدام شامل نہیں تھا۔

بجٹ میں دیہی ترقی کے لئے 1 لاکھ 22 ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں ۔اس میں سے 61 ہزار 500 روپے براہ راست مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی ایکٹ منریگا کے ذریعہ بہم پہنچائے جائیں گے۔گزشتہ سال مختص کی گئی رقم سے زیا دہ ہے لیکن یہ رقم سرنوجائزہ لیے جانے کے بعد لگائے گئے تخمینے یعنی 71 ہزار کروڑ روپے سے کم ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی مختص کی گئی رقومات سے موجودہ ضرورت پوری نہیں ہوگی ۔ ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں اضافے کے ساتھ یقینی روز گار کے ایام میں بھی اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔گزشتہ سال دیہی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کے لیے 19 ہزار کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے ۔جبکہ اس سال اس کے لئے صرف 500کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں۔

وزیر اعظم جن اروگیا یوجنا ( ایوشمان بھارت ) کے لئے اس سال 6 ہزار 400 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ تعلیمی اور طبی سہولیات کو فروغ ملنا چاہیے تاکہ غریب لوگ بھی ان شعبوں کی ترقی سے استفادہ حاصل کرسکیں۔ اس کے علاوہ بھارت کو ماہرین کی کمیٹی کی جانب سے کم ازکم اجرت کی مقرر کردہ حد یعنی 375فی دن کو بھی بڑھانا چاہیے۔

سال 2019 میں مرکز نے کم ازکم روزانہ اجرت کو 176روپے سے بڑھا کر 178روپے کردیا تھا۔کیا یہی ترقی ہے کہ آمدنی میں محض دو روپے کا اضافہ ہو۔ غریبوں کے لئے ایک عالمی روزگار اسکیم متعارف کی جانی چاہیے۔

وزیراعظم کسان اسکیم کے زمرے میں ان زرعی مزدوروں کو بھی لایا جانا چاہیے، جن کے پاس اپنی زمین نہیں ہے۔ زرعی شعبے میں کل افرادی قوت کا 55فیصد ان ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔لیکن تجزیہ کاروں کی پیشن گوئی ہے کہ اس اسکیم کے لئے مختص فنڈس کم پڑجائیں گے۔

حکومت کو اس بات کا عزم کرنا چاہیے کہ ترقی کے ثمرات غریب لوگوں تک پہنچیں۔حکومت کے ساتھ ساتھ بڑی کمپنیوں اور بڑے دولت مندوں کو بھی اس ہدف کے تکمیل کے لئے خود کو وقف کرنا چاہیے۔

آمدنی میں عدم مساوات صرف بھارت میں ہی نہیں ہے۔ امریکہ میں ایک فیصد بڑے دولت مندوں کے پاس مجموعی دولت کا 47فیصد ہے۔یہاں تک کہ دیگر ترقی یافتہ اقوام میں بھی ایک فی صد دولت مندوں کے قبضے میں 34سے55فیصد دولت ہے۔زیادہ تر پیسہ کمپنیوں کے سی ای اوز اور ان کی انتظامیہ کے درمیانی درجے کے ایگزیکٹوز کے پاس جاتا ہے۔

مرکزی اور ریاستی سرکاریں شاہراؤں اور بندرگاہوں جیسے انفراسٹرکچر پروجیکٹوں کے لئے بانڈز جاری کرتے ہیں۔ سال 2018 میں امریکہ کا کل بانڈز مارکیٹ 14 ٹریلین ڈالر پر محیط تھا۔ ان میں سے 60 فیصد بانڈز غیر ملکی حکومتوں، امریکی فیڈرل ریزرو اور دیگر اداروں نے خریدے۔ 33فیصد امیر اور اوسط طبقے کے شہریوں نے خریدے۔ پچیس سال بعد اس سرمایہ کاری کا اچھا منافع حاصل ہوگا۔ حکومت ہند بھی اسی طرح سے سرکاری بانڈز جاری کررہی ہے۔

Last Updated : Mar 1, 2020, 6:23 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details