توانائی پر انحصار رکھنے والے ممالک تیل کی فراوانی اور ان کی قیمتیں مقرر کرنے کا عمل بہت معنی رکھتے ہیں، جن ممالک کے پاس تیل کے ذخائر ہیں وہ ہمیشہ اس کی قیمتیں مقرر کرنے اس کی پیداوار گھٹانے یا بڑھانے اور اسے باقی دُنیا میں برآمد کرنے جیسے معاملات میں اپنی اجارہ داری رکھتے آئے ہیں۔ اس وجہ سے ان ممالک کو دنیا کی معیشت اور جیو پالیٹکس کو متاثر کرنے کی حیثیت بھی حاصل ہے۔
تیل بر آمد کرنے والے ممالک کا اتحاد 'آرگنائزیشن آف آئیل پروڈیوسنگ کنٹریز(OPEC) پندرہ ممالک پر مشتمل ہے، اسے سنہ 1980کی دہائی میں قائم کیا گیا تھا، روس اس اتحاد میں شامل تو نہیں ہے لیکن وہ اس تنظیم کی میٹنگوں میں شرکت کرتا ہے۔
روس اور امریکہ جنہیں اب دُنیا میں شیل گیس کی پیداوار کے حوالے سے خاص حیثیت حاصل ہے، دو ایسی خود مختار قوتیں ہیں جو دنیا میں تیل کی قیمتیں مقرر کرنے کے حوالے سے ہیرا پھیری کرنے کی صلاحیت کے بھی حامل ہیں۔
مارچ کی ابتدا میں جب کرونا وائرس کی وبا پھیلی اس وجہ سے تیل کی قیمتیں گر گئیں کیونکہ وائرس سے متاثرہ چین، جنوبی کوریا اور دیگر کئی ممالک میں تیل کی کھپت کم ہوگئی۔ خام مال کی قیمتیں گِر کر 50 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔
اس صورتحال کے تناظر میں سعودی عرب نے قیمتیں مزید گرنے سے روکنے کے لیے تیل کی پیداوار کم کرنے کی تجویز پیش کی لیکن روس نے پیداوار کو گھٹانے کی اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کیا اور مسلسل وافر مقدار میں تیل پیدا کرنے لگا۔
روس کے اس رویہ کی وجہ سے تیل کی قیمتیں مزید گِر گئیں۔ قیمتوں میں اتنی گراؤٹ اس سے قبل سنہ 1991 میں خلیج میں جنگ کے دوران دیکھنے کو ملی تھی۔ سعودی عرب، جو خود کو دنیا میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک سمجھتا ہے ، نے اس معاملے پر روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔
سعودی عرب نے نہ صرف تیل کی قیمتیں مزید گرادیں بلکہ خام تیل کی پیداوار میں بھی اضافہ کردیا، ٹکراؤ کی اس پالیسی کے نتیجے میں تیل کی قیمتیں مزید کم ہوکر تیس ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے۔
ایک اہم امریکی مالیاتی ادارے گولڈ مین ساچس نے پیش گوئی کی ہے کہ ابھی تیل کی قیمتوں میں مزید گراؤٹ ہوگی اور یہ بیس ڈالر فی بیرل ہوجائے گی۔
ان حالات میں اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں کس کو فائدہ مل رہا ہے اور کس کا نقصان ہورہا ہے؟
جبکہ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ روس، جس کا انحصار خود تیل کی آمدنی پر ہے،نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
در اصل سنہ 2015 میں تیل کے بحران سے دھچکہ کھانے کے بعد روس نے اپنی معیشت کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے زر اور سونے کے ذخائر جمع کئے تاکہ کسی بھی طرح کے مالی بحران میں اس کے قدم ڈگمگا نہ سکیں۔ یوکرین تنازعے کے حوالے سے روس پر مغرب کی اقتصادی پابندیوں کے بعد اس نے اپنی مالی پوزیشن اس قدر مستحکم کرلیں، جیسے یہ حا لت جنگ میں ہو۔
روس نے یہ سب اس لیے کیا تاکہ تیل کی قیمتیں گرنے کی صورت میں اس کی معاشی حالت خراب نہ ہوسکے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب روس اس پوزیشن میں ہے کہ وہ عربوں اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ حالانکہ روس، سعودی عرب کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کا دعویٰ کرتا ہے اور تیل کی قیمتیں مقرر کرنے کے معاملے میں سعودی عرب کے ساتھ اشتراک کرتا رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں دونوں کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔
روس، شام میں اسد گروپ کو فوجی تعاون دے رہا ہے اور اس پر سعودی عرب اس کی شدید مخالفت کررہا ہے۔ روس سعودی عرب سے نالاں ہے اور اب وہ اسے مغربی ایشیائی خطے میں اس کی معمولی سیاسی حیثیت کا احساس دلارہا ہے۔
دوسرا یہ کہ، امریکہ تیل پیدا کرنے اور اسے برآمد والا ایک کلیدی ملک ہے، امریکہ کی جانب سے شیل گیس کی وافر پیداوار کے باعث توانائی کے بازار میں سعودی عرب اور روس کی برتری کو چیلنج درپیش ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ تیل کے مارکیٹ پر قبضہ بھی جما رہا ہے۔
اب جبکہ روس کے اس داؤ سے تیل کی قیمتوں میں گراوٹ آگئی ہے، امریکہ کو بھی اپنے مال کی قیمتیں مجبوراً گھٹانی پڑی ہیں اور ساتھ ہی پیدا وار بھی کمی لانی پڑی۔ اس کی وجہ سے امریکہ کی تیل کی معیشت کے پیر ڈگمگانے لگے ہیں۔ امریکی تیل کمپنیوں نے ملازمین کو نکالنا شروع کردیا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو اب اپنے ملک کی تیل کمپنیوں کی اس بدحالی کی فکر ستانے لگی ہے۔ اس کی وجہ سے روسی صدر کو برتری حاصل ہورہی ہے کیونکہ دیر سویر ٹرمپ کو اس معاملے میں روس کے ساتھ مذاکرات کرنے ہی پڑیں گے۔ اس صورتحال میں پوتن اب امریکہ کے ساتھ ٹکر لینے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کی جانب سے روس پر مالی پابندیاں عائد ہیں۔ گزشتہ ماہ ان پابندیوں میں مزید اضافہ کردیا گیا۔ کیونکہ روس نے وینیزوئیلا کو تیل فروخت کیا تھا جس پر پہلے ہی امریکی پابندی عائد ہے۔
تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ روس نے چین، یہاں تک کہ یورپ میں اپنی مارکیٹ کو محفوظ کرلیا ہے، اس طرح سے پوتن نے صحیح کھیل کھیلا ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کے نتیجے میں ایک عام صارف پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
بظاہر عام صارفین کو مارکیٹ میں اس گراوٹ کی وجہ سے فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ تیل کی قیمتوں میں کمی آگئی ہے لیکن اس سے پہلے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عام صارفین تک پہنچ پاتا، تیل کی بڑی بڑی کمپنیاں راہ میں حائل ہورہی ہیں۔
چونکہ امریکہ اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کی ان کمپنیوں کے منافع میں کمی واقع ہورہی ہے، اس لیے انہوں نے اپنی حکومتوں پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا ہے۔ یہ کمپنیاں اپنی حکومتوں سے ٹیکسز میں چھوٹ، بڑی مراعات اور دیگر چیزوں کا مطالبہ کرنے لگی ہیں۔
حکومتیں بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے میں لگ گئی ہیں، جیسا کہ بھارت نے خام تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کے باوجود ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔ اس طرح سے عام صارف کو پیٹرول سستا نہیں مل پارہا ہے جبکہ حکومت کو اس کا فائدہ ہورہا ہے۔
اس معاملے پر تناؤ پیدا ہوجاتا لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے یہ مسئلہ پس پردہ چلا گیا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں بڑی دوا ساز کمپنیاں اور تیل کی کمپنیاں پھلتی پھولتی رہیں گی۔ جب تک عام لوگوں کی سمجھ میں یہ سارا کھیل نہیں آجاتا اور وہ اپنے مفادات کے لیے متحد نہ ہوجاتے، یہ سارا کھیل یوں ہی جاری رہے گا۔