پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور زرعی بلز کے خلاف حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں سمیت کسانوں کی تنظیموں کے ذریعہ بلائے جانے والے بھارت بند کا سب سے زیادہ اثر شمالی بھارت خصوصاً پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں دیکھا گیا۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں اور کسان تنظیموں نے دیگر ریاستوں میں بھی مظاہرے کیے۔ بھارتی کسان یونین (بی کے یو) کا دعویٰ ہے کہ بھارت بند کے دوران جمعہ کو پنجاب اور ہریانہ مکمل طور پر بند رہے۔ بھارتی کسان یونین کے علاوہ کئی دیگر کسان تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے بھی دونوں ریاستوں میں بند کی حمایت کی۔ پنجاب اور ہریانہ میں، کانگریس سے وابستہ کسان تنظیموں، شرومنی اکالی نے بلز کی مخالفت کی۔ مغربی اتر پردیش میں بھی، کسانوں نے متعدد مقامات پر اس بل کے خلاف احتجاج کیا۔ نوئیڈا میں دہلی اترپردیش سرحد پر بھارتی کسان تنظیم سے وابستہ افراد نے دہلی مظاہرہ کیا۔
دوسری طرف، بہار میں، مرکزی حزب اختلاف کی جماعت راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا۔ زراعت بل پر احتجاج مہاراشٹر، راجستھان، کرناٹک، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ جیسے مقامات پر بھی کسانوں کی تنظیموں نے بل کے خلاف احتجاج کیا۔ مہاراشٹر میں، بل کے خلاف احتجاج میں کانگریس، نیشنلسٹ کانگریس، آل انڈیا کسان سبھا کے رہنماؤں اور کارکنوں نے حصہ لیا۔ کسانوں نے ممبئی، تھانہ، پالگھر، پونے، کولہا پور، ناسک، جالنہ سمیت متعدد مقامات پر مظاہرہ کیا۔
مدھیہ پردیش کے مدسور، نیمچ، رتلم ہردا سمیت متعدد مقامات پر کسانوں نے اس بل کے خلاف احتجاج کیا۔
مظاہروں میں شامل کسانوں کی تنظیموں کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ نیا قانون زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹی (اے پی ایم سی) کے زیر انتظام منڈیوں کا خاتمہ کرے گا، جس سے کسانوں کو اپنی پیداوار فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ کم از کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) پر فصلوں کی خریداری کے بارے میں بھی شبہ ہے۔ پنجاب اور ہریانہ میں اہم خریف کی فصل دھان اور ربیع کی فصل گندم ایم ایس پی پر بڑے پیمانے پر خریداری ہوتی ہے اور دونوں ریاستوں میں اے پی ایم سی نظام دیگر ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں زرعی بلوں کی بہت مخالفت ہورہی ہے۔