حالیہ برسوں میں بھارت کے دفاعی بجٹ میں مستقل مماثلت پائی گئی ہے۔ مجموعی طور پر مختص رقم میں کم سے کم اضافہ، جی ڈی پی شرح میں مسلسل گراوٹ، بڑھتے ہوئے محصولاتی اخراجات اور سرمایہ کاری کے مواقعے میں مسلسل کمی اس کو اضافے سے روکتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ "قومی سلامتی اس حکومت کی اولین ترجیح ہے" تا ہم فوج کے لئے درکار رقم مختص کرنے کے معاملے میں ان کے بیان میں کنجوسی دکھتی ہے۔
اس بات پر غور کرنے کے لئے دو نقطہ نظر ہیں:
پہلا یہ کہ دفاعی اخراجات معاملے میں بھارت پہلے ہی دنیا کا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنی جی ڈی پی کا دس فیصد سے بھی کم حصہ صحت اور تعلیم پر مشترکہ طور خرچ کر رہا ہو، ایسا ملک جو ان دنوں معاشی سست روی سے دو چار ہو، ویسے ملک کے لئے ایک ہزار 600 کروڑ کی قیمت والے رافیل جیٹ طیاروں کی خریداری میں پیسہ ڈالنا سمجھداری کا کام نہیں لگتا۔
ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس میں انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے تقریبا پانچ کروڑ افراد ماہانہ 4200 روپے پر زندہ رہتے ہیں۔ ایک جریدے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ سالوں میں تین کروڑ افراد بھارت کی سرکاری غربت کی لکیر سے نیچے آگئے ہیں اور غریبوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ تو کیا ایسے حالات میں غربت کے خاتمے کو بندوقوں سے زیادہ ترجیح دیا جانا چاہئے؟
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ دفاعی بجٹ ان حفاظتی خطرات سے متعلق ہونا چاہئے جن کا سامنا قوم کو کرنا پڑتا ہے اور عالمی نظم و ضبط میں اس کے مستقبل کے نقطہ نظر کا خاص خیال بھی رکھا گیا ہو۔
جنوبی ایشیاء آج دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم خطوں میں سے ایک ہے، بھارت کو اس کے مغرب میں ایک غیر مستحکم پڑوسی کا سامنا ہے جبکہ اس کے شمال میں ایک ابھرتی ہوئی مضبوط طاقت کا سامنا ہے اور ان دونوں ملکوں سے دشمنی مستقبل میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔
ایس مانا جاتا ہے کہ اگلی دہائی میں پاکستان کو سنبھالنا فوجی طور پر آسان ہوجائے گا تا ہم چین ایک سنگین تشویش کا باعث ضرور ہوگی۔
چین کا دفاعی بجٹ تقریبا 250 ارب امریکی ڈالر ہے جو اس وقت بھارت کے دفاعی بجٹ سے چار گنا زیادہ ہے اور آنے والے برسوں میں اس میں میں مزید اضافہ ہونے کا امکان بھی ہے۔
ایک یورپی کمیشن کے مطالعے کا اندازہ ہے کہ 2030 تک بھارت اور چین کے فوجی اخراجات بالترتیب 213 ارب امریکی ڈالر اور 736 ارب امریکی ڈالر تک جا سکتی ہے تا ہم دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اخراجات کا فاصلہ تقریبا 500 اراب امریکی ڈالر سے زیادہ کا ہوگا۔
چین کا عروج پرامن نہیں ہوگا اور اس کے آثار پہلے ہی دکھ رہے ہیں، امریکہ اور چین پہلے ہی تجارتی اور ٹکنالوجی کی جنگ میں بند ہیں جو عالمی نظام کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہیں اس عالمی مقابلے میں بھارت سوئنگ اسٹیٹ بن سکتا ہے تاہم عالمی سطح پر ایک اہم کھلاڑی بننے کے لئے بھارت کو اپنی سخت طاقت کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔
ہم ان دونوں نقطہ نظر کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
موجودہ بجٹ سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ فوج کو دباؤ والے بجٹ کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ پہلی چیز جو تشویش کا باعث بنتی ہے وہ اعلی تنخواہ اور پنشن پر خرچ کئے جانے والے اعداد و شمار ہیں وہیں تنخواہ میں کٹوتی بھی ایک دائرے تک ہی کی جاسکتی ہے۔ بہترین افراد کو ملک کے بہت مشکل پیشہ کی جانب راغب کرنے کے لئے خدمات کے حالات کو پرکشش بنانا بھی بےحد ضروری ہے۔