اردو

urdu

ETV Bharat / business

حکومت کو بجٹ مختص کرنے سے آگے بھی دیکھنا چاہئے - ڈی ایس ہوڈا دفاعی امور کے ماہر

وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ "قومی سلامتی اس حکومت کی اولین ترجیح ہے" تا ہم فوج کے لئے درکار رقم مختص کرنے کے معاملے میں ان کے بیان میں کنجوسی دکھتی ہے۔ یہ کہنا ہے دفاعی امور کے ماہر جنرل (ریٹائرڈ) ڈی ایس ہوڈا کا۔

حکومت کو بجٹ مختص سے آگے دیکھنا چاہئے
حکومت کو بجٹ مختص سے آگے دیکھنا چاہئے

By

Published : Feb 5, 2020, 6:06 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 7:15 AM IST

حالیہ برسوں میں بھارت کے دفاعی بجٹ میں مستقل مماثلت پائی گئی ہے۔ مجموعی طور پر مختص رقم میں کم سے کم اضافہ، جی ڈی پی شرح میں مسلسل گراوٹ، بڑھتے ہوئے محصولاتی اخراجات اور سرمایہ کاری کے مواقعے میں مسلسل کمی اس کو اضافے سے روکتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ "قومی سلامتی اس حکومت کی اولین ترجیح ہے" تا ہم فوج کے لئے درکار رقم مختص کرنے کے معاملے میں ان کے بیان میں کنجوسی دکھتی ہے۔


اس بات پر غور کرنے کے لئے دو نقطہ نظر ہیں:
پہلا یہ کہ دفاعی اخراجات معاملے میں بھارت پہلے ہی دنیا کا چوتھا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنی جی ڈی پی کا دس فیصد سے بھی کم حصہ صحت اور تعلیم پر مشترکہ طور خرچ کر رہا ہو، ایسا ملک جو ان دنوں معاشی سست روی سے دو چار ہو، ویسے ملک کے لئے ایک ہزار 600 کروڑ کی قیمت والے رافیل جیٹ طیاروں کی خریداری میں پیسہ ڈالنا سمجھداری کا کام نہیں لگتا۔

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس میں انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے تقریبا پانچ کروڑ افراد ماہانہ 4200 روپے پر زندہ رہتے ہیں۔ ایک جریدے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ سالوں میں تین کروڑ افراد بھارت کی سرکاری غربت کی لکیر سے نیچے آگئے ہیں اور غریبوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ تو کیا ایسے حالات میں غربت کے خاتمے کو بندوقوں سے زیادہ ترجیح دیا جانا چاہئے؟

دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ دفاعی بجٹ ان حفاظتی خطرات سے متعلق ہونا چاہئے جن کا سامنا قوم کو کرنا پڑتا ہے اور عالمی نظم و ضبط میں اس کے مستقبل کے نقطہ نظر کا خاص خیال بھی رکھا گیا ہو۔
جنوبی ایشیاء آج دنیا کے سب سے زیادہ غیر مستحکم خطوں میں سے ایک ہے، بھارت کو اس کے مغرب میں ایک غیر مستحکم پڑوسی کا سامنا ہے جبکہ اس کے شمال میں ایک ابھرتی ہوئی مضبوط طاقت کا سامنا ہے اور ان دونوں ملکوں سے دشمنی مستقبل میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔
ایس مانا جاتا ہے کہ اگلی دہائی میں پاکستان کو سنبھالنا فوجی طور پر آسان ہوجائے گا تا ہم چین ایک سنگین تشویش کا باعث ضرور ہوگی۔

چین کا دفاعی بجٹ تقریبا 250 ارب امریکی ڈالر ہے جو اس وقت بھارت کے دفاعی بجٹ سے چار گنا زیادہ ہے اور آنے والے برسوں میں اس میں میں مزید اضافہ ہونے کا امکان بھی ہے۔
ایک یورپی کمیشن کے مطالعے کا اندازہ ہے کہ 2030 تک بھارت اور چین کے فوجی اخراجات بالترتیب 213 ارب امریکی ڈالر اور 736 ارب امریکی ڈالر تک جا سکتی ہے تا ہم دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اخراجات کا فاصلہ تقریبا 500 اراب امریکی ڈالر سے زیادہ کا ہوگا۔

چین کا عروج پرامن نہیں ہوگا اور اس کے آثار پہلے ہی دکھ رہے ہیں، امریکہ اور چین پہلے ہی تجارتی اور ٹکنالوجی کی جنگ میں بند ہیں جو عالمی نظام کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہیں اس عالمی مقابلے میں بھارت سوئنگ اسٹیٹ بن سکتا ہے تاہم عالمی سطح پر ایک اہم کھلاڑی بننے کے لئے بھارت کو اپنی سخت طاقت کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔


ہم ان دونوں نقطہ نظر کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟

موجودہ بجٹ سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ فوج کو دباؤ والے بجٹ کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ پہلی چیز جو تشویش کا باعث بنتی ہے وہ اعلی تنخواہ اور پنشن پر خرچ کئے جانے والے اعداد و شمار ہیں وہیں تنخواہ میں کٹوتی بھی ایک دائرے تک ہی کی جاسکتی ہے۔ بہترین افراد کو ملک کے بہت مشکل پیشہ کی جانب راغب کرنے کے لئے خدمات کے حالات کو پرکشش بنانا بھی بےحد ضروری ہے۔

امریکی فوج اپنے بجٹ کا تقریبا 40 فیصد حصہ اپنے اہلکاروں کی ادائیگیوں اور فوائد پر خرچ کرتی ہے۔ پنشنوں میں بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔

اکثر اپنی جان کی بازی لگاکر ملک کی حفاضت اور خدمت کرنے والے فوجیوں کی دیکھ بھال قوم کو کرنی ہوگی تا ہم ملک کی پنشن کے اعداد و شمار عام طور پر پوری دنیا کی فوجیوں کو دی جانے والے پینشن کے اعداد شمار کے مطابق ہی ہوتی ہیں۔ تا ہم اس کا جواب مسلح افواج کے مجموعی تعداد اور ڈھانچے پر سخت نظر ڈالنے پر پتہ چلتی ہے۔

فوج میں 40 سال خدمات انجام دینے کے بعد میری یہ رائے ہے کہ ہماری افرادی قوت کو کم کرنے کے لئے عرض البلد ہے۔ لاجسٹک، ٹریننگ حتی کہ ایئر ڈیفنس جیسے جنگی کاموں میں بھی ان تین خدمات میں نقل کی ایک مقررہ رقم موجود ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ نئی سی ڈی ایس اس کمی کے لئے ان علاقوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

فوج کے کچھ یونٹز میں ریزروسٹ ماڈل اپنانے کی بھی گنجائش موجود ہے اور اس سے افرادی قوت میں خاطر خواہ بچت بھی ہوسکتی ہے۔ فضائیہ اور بحریہ کو بھی اپنے 44 اسکواڈرن فائٹر بیڑے یا 200 بحری جہاز کے تعمیراتی منصوبے پر بھی دوبارہ سے نظر ڈالنی ہوگی۔

فوجی پلیٹفارمز کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے ساتھ یہ اعداد و شمار محض ناقابل تلافی ہیں اور یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا سامنا صرف بھارت کو ہی ہے۔ 750 ارب ڈالر دفاعی بجٹ والے امریکہ کے پاس 1987 میں 600 بحری جہاز تھے تا ہم اب 300 سے کم ہیں، وہیں فضایئہ جنگی طیاروں میں بھی کمی کی گئی ہے۔

اس پر دلیل دی جاسکتی ہے کہ حجم میں کسی قسم کی کمی ہماری فوج کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتی ہے تاہم یہ ضروری بھی نہیں ہے۔ نئی ہتھیاروں سے لیس کم تعداد کی افواج، تعداد میں بڑے مگر پرانے اسلحے اور نظام سے لیس فوجیوں سے زیادہ کارآمد ہوسکتی ہے۔

سنہ 2015 کے بعد سے چین نے تین لاکھ افواج کم کئے ہیں تا ہم ایسا کرکے چین نے جنگ کی تیاریوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ دفاعی بجٹ میں کمی عام طور پر فوج میں مایوسی کا باعث بنتا ہے۔

پھر بھی سینئر قیادت کو تنظیم نو اور اصلاحات کے تعلق سے سنجیدہ ہونا پڑیگا۔ بجٹ کی جسامت اور فوج کا حجم بہت دنوں تک باقی نہیں رہ سکتا۔


لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) ڈی ایس ہوڈا دفاعی امور کے ماہر ہیں

Last Updated : Feb 29, 2020, 7:15 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details