مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے ایوان میں اس بل پر تین گھنٹے کی بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’کوآپریٹیو بینکوں کا ریگولیشن 1965 سے ہی آر بی آئی کے پاس ہے۔ ہم کوئی نیا کام نہیں کر رہے ہیں۔ جو نیا کر رہے ہیں وہ جمع کرنے والوں کے مفاد میں ہے۔ یہ قانون پیسہ جمعہ کرنے والوں کی حفاظت کے لیے لایا گیا ہے‘‘۔
بینکنگ ریگولیشنز ترمیمی بل منظور اپوزیشن کے تمام خدشات کا ایک ایک جواب دیتے ہوئے محترمہ سیتارامن نے کہا کہ یہ قانون مرکزی حکومت کو کوآپریٹیو بینکوں کو منظم کرنے کا اختیار نہیں دیتا ہے۔ یہ صرف آر بی آئی کو کوآپریٹیو بینکوں کی بینکنگ سرگرمیوں کو باقاعدہ کرنے کا حق دیتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے جواب میں پنجاب اور مہاراشٹر کوآپریٹیو (پی ایم سی) بینک کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور شیوسینا کے ارکان نے بحث کے دوران یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ حزب اختلاف نے اس بل کو کوآپریٹیو تنظیموں سے متعلق ریاستوں کے حقوق میں مداخلت قرار دیا تھا۔
کانگریس رہنما ادھیر رنجن چودھری نے الزام لگایا کہ حکومت کوآپریٹیو بینکوں کی نجی کاری کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے کوآپریٹیو بینکوں کی خود مختاری خطرے میں پڑ جائے گی۔
قبل ازیں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے بل کو بحث کے لیے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی میں، پنجاب اینڈ مہاراشٹر کوآپریٹیو بینک، یس بینک وغیرہ کے ساتھ ہوتے ہوئے معاملوں کے پیش نظر حکومت نے کھاتیداروں کے مفادات کی حفاظت کے لیے تمام کوآپریٹیو بینکوں کو کمرشیل بینکوں کی طرز پر آر بی آئی کے ماتحت لانے کے مقصد سے حکومت نے بل میں بینک کاری ریگولیشن بل کی شق 3, 45 اور 56 میں ترمیم کرنے کی تجویز دی ہے۔
شق 3 اور 56 میں ترمیم سے آر بی آئی کو کمرشیل بینکوں کی طرح کوآپریٹیو اداروں کے بینکوں کے آڈٹ اور کام کاج پر قدغن لگانے کا حق ملے گا جبکہ 45 میں ترمیم سے ریزرو بینک کو موراٹوریم کے بغیر غیر منقولہ اثاثوں کو منجمد کرنے اور اسے نقصانات سے نجات دلانے میں مدد ملے گی۔
محترمہ سیتارمن نے کہا کہ حکومت ایک طویل عرصے سے کوآپریٹیو بینکوں کے کام کی نگرانی کر رہی ہے۔ کوآپریٹیو بینکوں کے کل غیر منقولہ اثاثے 7.27 فیصد تھے اور یہ اعداد و شمار مارچ 2020 میں 10 فیصد سے زیادہ ہوگئے۔ اسی لیے بجٹ سیشن میں اس بل کو لایا گیا تھا لیکن لاک ڈاؤن کے سبب پاس نہیں ہو پایا اور جمع کنندگان کے مفادات کے تحفظ کی خاطر آرڈیننس لانا پڑا۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے بی جے پی کے شیو کمار اداسی نے بل کی حمایت کی اور کہا کہ ملک میں 1934 کوآپریٹیو بینکوں میں 10 لاکھ سے زیادہ کھاتیدورں کے تقریباً ساڑھے سات لاکھ کروڑ روپیے جمع ہیں۔ اس بل سے جمع کنندگان کے پیسوں کی حفاظت یقینی ہوگی اور عوام کا اعتماد کوآپریٹیو بینکوں کے تئیں بڑھے گا۔ قرض دہندگان بھی کوآپریٹیو بینکوں کو یقین سے قرض دے سکیں گے۔
آر کانگریس پارٹی کے لاوو سری کرشن دیورایلو نے اس بل کی حمایت کی اور یہ بھی مشورہ دیا کہ ریزرو بینک کو ہر مسئلے کا واحد حل نہیں بنایا جانا چاہئے۔ وقت سے پرے بحران کی نشاندہی کرنے کی پہل ہو اور کوآپریٹیو بینکوں کی حصہ داری کو کو قبول کیا جائے۔ ان بینکوں نے عوام کی خدمت کی ہے۔