لینسیٹ گلوبل برڈن آف ڈیزیز نے 195 ممالک کی آبادی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جس میں آبادی، شرح تولید، شرح اموات، ہجرت اور آبادی پر ایک تحقیق کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2017 سے 2100 ء کے درمیان دنیا آبادی کی نوعیت کیس ہوگی۔ تحقیق میں کہاگیا کہ مستقبل میں آبادی کی سطح ممکنہ نمونوں کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ بدلتے ہوئے ڈھانچے پر بھی توجہ دی جا سکے۔اسی مناسبت سے وسائل اور صحت کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے اور ماحولیاتی اور معاشی منظر ناموں میں پیشن گوئی کرنا اور منصوبہ بنانا آسان ہو سکے۔
اس تحقیق میں اموات، شرح تولید، ہجرت اور آبادی کی پیش گوئی کے لیے نئے طریقے اپنائے گئے ہیں۔ مستقبل میں آبادی میں تبدیلیوں کے امکان، معاشی اور جغرافیائی سیاسی اثرات کا بھی اندازہ کیا گیا ہے۔ بہت سے ممالک میں آبادی اور عمر کے ڈھانچے میں تبدیلی سے معاشی، سماجی اور سیاسی اثر پڑ سکتا ہے۔
- سنہ 2100 میں مجموعی طور پر شرح تولید 1.66 ہونے کا امکان ہے۔
- اس وقت دنیا میں تقریباً سات ارب 80 کروڑ انسانوں کی آبادی ہے اور امکان ہے 2046 تک یہ آبادی نو ارب 70 کروڑ تک پہنچ جائیگی۔ لیکن اس صدی کے اختتام اس میں کمی ہوگی اور یہ تقریبا آٹھ ارب 79 کروڑ تک ہی رہ جائیگی۔
- وہیں سنہ 2100 میں بھارت کی آبادی 1.09 ارب( 109 کروڑ) نائیجریا کی آبادی 791 میلیئن( 79.1 کروڑ) چین کی آبادی 732 (73.2 کروڑ) امریکہ کی آبادی 336 میلیئن( 33.6 کروڑ) اور پاکستان کی 248 میلیئن(24.8 کروڑ ہونے کا اندازہ ہے۔
- سنہ 2109 میں بھارت کی شرح تولید 2.1 فیصد سے کم تھی، اندازہ ہے کہ سنہ 2040 تک کل شرح تولید میں گراوٹ درج ہوگی اور سنہ 2100 میں یہ 1.2 فیصد تک آجائے گی۔
سنہ 2100 میں، 195 ممالک میں سے، 118 ممالک اور خطوں میں نقل مکانی کی شرح ہر 1000 آبادی میں -1 سے 1 کے درمیان ہوگی۔ 44 ممالک میں نقل مکانی کی شرح 1000 افراد پر 2 سے 2 کے درمیان ہوگی۔
سنہ 2100 میں ایک ملک سے دوسرے ملک جانے والے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد امریکہ، بھارت اور چین سے ہوگی اور جن ممالک میں سب سے زیادہ تارکین وطن ہوں گے وہ صومالیہ، فلپائن اور افغانستان ہیں۔