اردو

urdu

ETV Bharat / business

درآمد اور طلب بڑھنے سے گارمنٹس سیکٹرز میں بہتری، مزدوروں کی قلت برقرار - ٹیکسٹائل صنعت میں کام کرنے والے تقریباً 40 فیصد مزدور

لاک ڈاؤن کے دوران مزدوروں اور کاریگروں میں سے جو واپس گھر گئے تھے، ان میں سے بیشتر افراد اب تک واپس نہیں لوٹے ہیں، لہذا مزدوروں کی قلت اب بھی برقرار ہے۔

textile industry on track due to increase in exports and demand
textile industry on track due to increase in exports and demand

By

Published : Oct 28, 2020, 7:01 PM IST

نئی دہلی: تہواری سیزن میں برآمدی طلب بڑھنے اور خریداری میں اضافے کی توقعات سے گارمنٹس سیکٹرز کے کام میں تیزی آئی ہے۔ لیکن اب بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مزدوروں اور کاریگروں کی کمی برقرار ہے۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک گیر لاک سطح پر نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہاجر مزدوروں کی واپسی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔

40 فیصد مزدور اب تک کام پر واپس لوٹے ہیں

تاجروں کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت میں کام کرنے والے تقریباً 40 فیصد مزدور کام پر نہیں لوٹے ہیں۔ ان لاک کے دوران مرحلہ وار بازور اور کاروباری سرگرمیاں آہستہ آہستہ بحال ہونے لگی ہے۔ کپڑوں کی خریداری بڑھنے سے گارمنٹس سیکٹرز کا کام پٹری پر لوٹنے لگا ہے۔

اب یورپی ممالک اور امریکہ سمیت دیگر ممالک سے بھی بھارتی لباس کی طلب میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ مزید تاجر تہوار کے موسم اور موسم سرما کے کپڑوں کی گھریلو خریداری میں اضافے کی امید کر رہے ہیں۔

لدھیانہ نیئٹرز ایسوسی ایشن کے صدر اجیت لاکڑا نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران گارمنٹس برآمدات کی طلب میں بہتری آئی ہے اور بیرون ملک سے آرڈر ملنے شروع ہوگئے ہیں، لیکن گذشتہ برس کے مقابلے میں اب بھی مانگ میں 40 فیصد کمی ہے۔

حالانکہ انہوں نے ' کسان تحریک سے ریل گاڑی کی نقل حرکت متاثر ہونے اور کاروبار پر پڑنے والے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ لاکڑا نے کہا کہ ریل گاڑی کی نقل حرکت متاثر ہونے کی وجہ سے کپڑوں کی برآمدات وقت پر نہ ہونے پر انہیں آڈر رد ہونے کی فکر ستارہی ہے۔

مزدوروں اور کاریگروں کی کمی کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران مزدوروں اور کاریگروں میں سے جو گھر واپس گئے تھے، ان میں بیشتر افراد اب تک واپس نہیں لوٹے ہیں، لہذا مزدوروں کی قلت اب بھی برقرار ہے، لیکن پہلے کام اتنا زیادہ نہیں تھا اسی وجہ سے زیادہ پریشانی نہیں تھی۔ جیسے جیسے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کام بڑھ رہا ہے مزدوروں اور کاریگروں کی کمی محسوس ہورہی ہے۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ دوسری صنعتوں میں کام کرنے والے بیشتر مزدور واپس آئے ہیں، لیکن ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بحالی تاخیر سے شروع ہوئی ہے لہذا مہاجر مزدوں کی واپسی کی شرح کم ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ٹیکسٹائل انڈسٹری براہ راست اور بالاواسطہ 10 کروڑ سے زیادہ افراد کو ملازمت دیتی ہے اور زراعت کے بعد روزگار کا دوسرا سب سے بڑا شعبہ ہے، جو عالمی وبا کورونا وائرس ابتدائی دنوں میں بہت متاثر ہوا۔ تاہم اب کپڑوں کی گھریلو خریداری بھی آہستہ آہستہ شروع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اس صنعت میں بازیابی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

لدھیانہ کے نٹ ویئر اور ملبوسات مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر سدرشن جین نے بتایا کہ دسہرہ اور دیوالی اور دیگر تہواروں کے دوران کپڑوں کی گھریلو خریداری میں معمولی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے لباس کی طلب میں اضافہ متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ سردیوں میں گھریلو منڈیوں میں اونی کپڑوں کی خریداری میں اضافہ متوقع ہے، جس کی وجہ سے گارمنٹس سیکٹر کے کام کاج میں بہتری آئی ہے، لیکن پیداوار گذشتہ برس کے مقابلہ میں صرف 40 سے 50 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ برس کے مقابلہ میں ملازمت کے شعبے میں 60 فیصد مزدور موجود ہیں اور 40 فیصد مزدور واپس نہیں آئے ہیں۔ جین نے یہ بھی کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران جو بھی مہاجر مزدور گھر گئے تھے وہ ابھی واپس نہیں ہوئے ہیں۔ ریڈی میڈ کپڑوں کی ایشیاء کی سب سے بڑی منڈی دہلی کی گاندھی نگر مارکیٹ میں تہوار کی وجہ سے رونق واپس لوٹی ہے، لیکن تاجروں کے سامنے مزدوروں اور کاریگروں کی کمی کا مسئلہ ہے۔

گاندھی نگر کے ٹیکسٹائل کے کاروباری ہریش کمار نے کہا کہ اب آرڈر مل رہے ہیں، لیکن مزدوروں کا مسئلہ ابھی باقی ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں اس وقت 50-60 فیصد مزدوروں کے ساتھ اپنا کام چلانا ہے۔' ہریش کمار نے کہا کہ مزدوروں کی پریشانی کے ساتھ ساتھ چھوٹے صنعتوں کے لیے بھی سرمایہ کا فقدان ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details