لاک ڈاؤن کی وجہ سے کولکاتا کے راجا بازار کے کاغذ کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ تاجروں کے مطابق مارچ اپریل کا مہینہ اس صنعت کے لیے کافی اہم ہوتا ہے جو لاک ڈاؤن کی نذر ہوگیا۔ راجا بازار کی ایک بڑی آبادی کا اس صنعت پر انحصار ہے جو لاک ڈاؤن کی مار جھیل رہے ہیں۔
کاغذ کی صنعت پر لاک ڈاؤن کی مار مرکزی کولکاتا کا راجا بازار بنیادی طور پر صنعتی علاقہ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی بڑی اسی کاروبا پر منحصر ہے۔ مزید اس علاقے میں غیر منظم گھریلو صنعت کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ یہاں پر کاغذ کی صنعت کے علاوہ چمڑے اور جوتے چپل کے گھریلو صنعت کی بھرمار ہے۔
راجا بازار کے پٹوار بگان میں کاغذ کی صنعت کو اولیت حاصل ہے۔ خصوصی طور پر کھاتے اور کاپی کے یہاں پر چھوٹے چھوٹے سینکڑوں کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں میں کام کرکے ہزاروں افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرتا ہے جو ان دنوں بحران کا شکار ہے۔
گذشتہ 23 مارچ سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ جس کی وجہ سے کولکاتا کے راجا بازار کے کاغذ کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ یہاں کے کارخانوں میں تیار ہونے والے کھاتے کاپی پورے بنگال میں بھیجے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کھاتے کاپی کا تھوک مارکٹ بھی ہے۔ جہاں سے پورے بنگال کے چھوٹے کاروباری خریداری کرتے ہیں۔ اسی مارکٹ سے کولکاتا کے سیالدہ اور کالج اسٹریٹ مارکٹ میں مال بھیجے جاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ کاروبار پوری طرح سے بند ہے اور ان کارخانوں میں کام کرنے والوں پر بھی زندگی مشکل ہو گئی ہے۔
کھاتا کاپی بنانے والے ایک کمپنی کے مالک فہد قیوم نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سال میں دو ماہ ہماری انڈسٹری کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں اور وہ مارچ اور اپریل کا مہینہ ہے جو اس لاک ڈاؤن کی نذر ہو گیا۔ مارچ میں سی ای ایس سی اور سی بی ایس سی بورڈ کا نیا سیشن شروع ہوتا ہے۔ ہم براہ راست اسکولوں کو بھی مال سپلائی کرتے ہیں اس کے علاوہ تھوک میں بھی چھوٹے کاروباریوں کا مال فروخت کرتے ہیں۔ اس سیزن کی تیاری بہت پہلے سے شروع کر دیتے ہیں۔ ہمیں مال تیار کرنے کے لیے کاغذ خریدنے ہوتے ہیں ہم نے خرچ تو کردیا لیکن جب منافع کمانے کی باری آئی تو لاک ڈاؤن نافذ ہو گیا۔ ہمارا پورا سیزن لاک ڈاؤن کی نذر ہو گیا۔ اس کے علاوہ ہمارے یہاں کام کرنے والے جو مزدور ہیں ان کو بھی خرچ دینا پڑ رہا ہے کیونکہ وہ ہم پر ہی منحصر ہیں ایسے وقت میں ہم انہیں بے یار و مدد گار نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔
اس صنعت سے جڑے ہوئے ایک اور تاجر محمد امان اللہ نے بتایا کہ ایک سیزن دسمبر جنوری کا ہوتا ہے جس میں سرکاری اسکولوں کا نیا سیشن شروع ہوتا ہے اور مارچ اور اپریل میں انگریزی میڈیم اسکولوں میں نیا سیشن شروع ہوتا ہے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورا کاروبار متاثر ہوگیا۔ ہم نے اپنے مزدوروں کو کچھ دنوں تک پچاس فیصد خرچ دیا لیکن اب نہیں دے پا رہے ہیں۔ اس صنعت پر آس پاس کے علاقے دھاڑ بگان ،راجابازار نارکل ڈانگہ کے علاوہ دور دراز جیسے ملک پور رائے گاچھی وغیرہ سے بھی لوگ کام کرنے آتے ہیں۔ ہمیں جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی میں شاید آئندہ تین ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔