عدالت عظمیٰ نے ٹیلی کام کمپنیوں کو اے جی آر بقایہ ادا کرنے کے لیے 10 سال کا وقت دیا ہے۔ مالی بحران کا سامنا کررہی مواصلاتی کمپنیوں کے لیے یہ ایک بڑی راحت مانی جارہی ہے۔
سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ' 31 مارچ 2021 تک ٹیلی کام کمپنیاں اپنے کل بقایہ کا 10 فیصدی ادا کریں گی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کورونا کی وجہ سے یہ وقت بڑاھا رہے ہیں۔ اے جی آر بقایہ ادا کرنے کے لیے دس سال کا وقت دیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے قومی کمپنی قانون (NCLT ) کو یہ فیصلہ کرنے کو کہا ہے کہ دیوالیہ کے دوران کیا اسپکٹرم فروخت کیا جاسکتا ہے؟
اس پس منظر کے ساتھ یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ تقریباً دو دہائیوں میں اے جی آر کا مسئلہ کب، کہاں اور کیسے سامنے آیا؟
مزید پڑھیں: 'کورونا کسانوں کے لیے مشکلات کا باعث'
سنہ 1994 میں 'نیشنل ٹیلی کام پالیسی' کے تحت ٹیلی کام سیکٹر کو آزاد کیا گیا۔ اس کے بعد ٹیلی کام آپریٹرز کو لائسنس اور اسپیکٹرم فیس کے طور پر ایک متعینہ رقم دینے کو کہا گیا۔ اس طرح پانچ برس تک ایسا ہی چلتا رہا لیکن سنہ 1999 میں حکومت نے کمپنیز کو ان کے مطالبے کے تحت متعینہ رقم کے اے جی آر یعنی ریونیو شیئرنگ سسٹم کی بات کہی۔
اس کے تحت موبائل آپریٹرز کو سالانہ لائسنس فیس ( ایل ایف) اور اسپیکٹرم فیس (ایس یو سی) کے طور پر حکومت کے ساتھ اپنے ایڈجسٹ گروس ریونیو ( اے جی آر) کا کچھ حصہ شیئر کرنا ضروری تھا۔ اس کے بعد سے ہی حکومت اور کمپنیز کے درمیان ' اے جی آر' کا ڈیفینیشن ( تعریف) طے کرنے سے متعلق تنازع شروع ہو گیا۔
جسے ٹیل کام سیکٹرز کے کمپنیوں نے سنہ 2003 محکمہ مواصلات کو چیلنچ کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔
کمپنیز کا کہنا تھا کہ محض وائس کالز اور ڈاٹا سروسز سے ہونے والی آمدنی ہی ' اے جی آر' کے ڈیفینیشن میں آئے گی، یعنی انہیں دونوں سروسز کی ریونیو شیئرنگ حکومت کو ملنی چاہیے جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ کمپنی کا مکمل سرمایہ 'اے جی آر' کے تحت شامل ہو گا۔ مثلا وائس کالز اور ڈاٹا سروسز سے ہونے والی آمدنی کے علاوہ بینک میں کمپنی کے فکس ڈپوزٹ سے ملنے والا سود اور کمپنی کی زمین سے ملنے والا کرایہ یہاں تک کہ اگر کمپنی کو کہیں سے چندہ بھی ملا ہے، تو اسے بھی' اے جی آر' میں شامل کیا جائے گا۔
اسی طرح سنہ 2005 میں سیلولر کارپوریٹز ایسوسی ایشن آف انڈیا (سی او اے آئی) نے اے جی آر کے تعلق سے حکومت کی تعریف کو چیلنچ کیا۔ سنہ 2005 ٹی ڈی ایس اے ٹی نے یہ معاملہ ٹیلی کام کمپنیز کے حق میں رکھا اور حکومت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سنہ 2011 میں سپریم کورٹ نے حکومت کے ڈیفینیشن کو قبول کرتے ہوئے کمپنیز کو حکومت کے مطابق پیسہ ادا کرنے کا حکم جاری کیا اور ساتھ ہی ٹریبیونل کو کہا گیا کہ وہ کمپنیز کے لین دین کو طے کر دیں لیکن سنہ 2015 میں ٹریبیونل نے کمپنیز کے ڈیفینیشن کو برقرار رکھا، تبھی حکومت نے دوبارہ سپریم کورٹ کا سہارا لیا اور آخر کار 24 اکتوبر سنہ 2019 کو سپریم کورٹ نے ٹریبیونل کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کے ڈیفینشن کو صحیح قرار دیا۔
جبکہ 29 اکتوبر 2019 کو حکومت نے بیل آؤٹ پیکیج تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں اسپیکٹرم فیس کم کرنے کے ساتھ ساتھ مفت موبائل کال اور سسٹے ڈاٹا پر بات چیت کی گئی۔
اس طرح 13 نومبر 2019: ٹیلی کام کمپنیز کا کہنا ہے کہ محکمہ مواصلات نے نوٹس جاری کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تین ماہ کے اندر اپنے بقایہ ادا کر دیں۔