نئی دہلی: زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے دارلحکومت دہلی کے ہریانہ، ہماچل پردیش، پنجاب اور جموں وکشمیر کو جوڑ نے والی قومی شاہراہیں، جی ٹی روٹ سمیت دیگر اہم شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے شمالی بھارت میں سپلائی چین ٹوٹ چکی ہے اور کاروبار بری طرح متاثر ہے۔ فیکٹریوں میں کہیں خام مال کی کمی ہے تو کہیں تیار سامان کی سپلائی نہ ہونے سے گوداموں رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ کسانوں کی تحریک سے پنجاب کے صنعتی شہر لدھیانہ کی ہوزری صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
ملبوسات مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر سدرشن جین نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو پہلے کورونا وبا نے متاثر کیا تھا اور اب یہ صنعت کسانوں کی تحریک سے بری طرح متاثر ہے۔ انہوں نے کہاکہ' دہلی میں کسانوں کی تحریک شروع ہونے سے قبل ہی پنجاب میں کسانوں کا ایک مظاہرہ جاری تھا جس سے ریل روڈ ٹریفک نظام متاثر تھا۔ ایسی صورتحال میں ان کا تیار شدہ سامان بھارت اور بیرون ملک کی منڈیوں تک نہیں پہنچ رہا ہے۔
جین نے کہا کہ موسم گرما کے سیزن کی فروخت کورونا وبا کی وجہ سے متاثر رہی اور اب سردیوں کے موسم کی فروخت کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے متاثر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب سے بہار، اڑیشہ اور ملک کے دیگر صوبوں تک سامان پہنچانے کے لیے نقل و حمل اور کورئیر سروس کے لیے دہلی پر انحصار کرنا پڑتا ہے جبکہ جی ٹی روڈ، جو شمالی بھارت میں روڈ ٹرانسپورٹ شہ رگ ہے، تین ہفتوں سے بند ہے۔'
دہلی بارڈر پر جی ٹی روڈ پر واقع سنگھو بارڈر کسانوں کی تحریک کا مرکزی مقام ہے جو 26 نومبر سے بند ہے۔ اس کے علاوہ دہلی ٹکاری بارڈر، غازی پور بارڈر سمیت قومی دارالحکومت میں داخل ہونے والے کچھ دیگر اہم راستوں کو بھی مظاہرین نے بند کردیا ہے، جس کی وجہ سے ٹرکوں کی نقل و حمل رک گئی ہے۔ اس کی وجہ سے نہ تو فیکٹریوں سے تیار سامان جاتا ہے اور نہ ہی خام مال کی فراہمی ہورہی ہے۔ دہلی میں کاروباری افراد نے بتایا کہ کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے خام مال کی قلت ہوگئی ہے۔