نئی دہلی: آتم نربھر بھارت کا ہدف حاصل کرنے کے لیے خود کفیل زراعت لازمی ہے۔ اس کے لیے زرعی بر آمدات انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ ملک کے لیے گراں قدر غیر ملکی زر مبادلہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ، بر آمدات سے کسانوں؍ برآمد کاروں کو بر آمدات کرنے میں مدد ملتی ہے، تاکہ وہ ایک وسیع بین الاقوامی مارکیٹ سے فائدہ حاصل کرسکیں اور اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکیں۔
عالمی تجارتی تنظیم کے تجارتی اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2017 میں دنیا کی زرعی تجارت میں بھارت کی زرعی برآمدات اور درآمدات کا حصہ بالترتیب 2.27 فیصد اور 1.90 فیصد تھا۔ وبا کی وجہ سے عائد لاک ڈاؤن کے مشکل حالات کے دوران بھارت نے اس بات کا خیال کیا کہ عالمی خوراک کی سپلائی چین میں کوئی رخنہ نہ پڑے، لہذا اس نے بر آمدات کو جاری رکھا۔ مارچ 2020 سے جون 2020 کے درمیان زرعی اشیاء کی بر آمدات 25552.7 کروڑ روپے تھی، جبکہ 2019 میں اسی مدت کے دوران یہ بر آمدات 20734.8 کروڑ روپے تھی، جس سے 23.24 فیصد کے زبردست اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کی زرعی جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر زرعی بر آمدات میں 2017-18 میں 9.4 فیصد سے 19-2018 میں 9.9 فیصد تک اضافہ ہوا۔ جبکہ بھارت کی زرعی جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر زرعی در آمدات میں 5.7 فیصد سے 4.9 فیصد تک گراوٹ آئی، جس سے بھارت میں قابل بر آمد اضافی سامان کا پتہ چلتا ہے اور زرعی مصنوعات کی در آمد پر انحصار میں کمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
آزادی سے لے کر اب تک زرعی بر آمدات میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے۔ سنہ 51-1950 میں بھارت کی زرعی بر آمدات تقریبا 149 کروڑ روپے تھی، جو 20-2019 دو لاکھ 53 ہزار کروڑ روپے کی سطح پر پہنچ گئی۔ پچھلے 15 برسوں میں تقریبا سبھی زرعی اشیاء کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے لیکن بھارت کا شمار زرعی مصنوعات کے سرکردہ پیداوار کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس کا شمار زرعی مصنوعات کے چوٹی کے برآمد کاروں میں نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر بھارت گیہوں کی پیداوار کرنے والا دنیا کا دوسرے درجہ کا حامل ہے، لیکن اس کا شمار برآمدات میں 34 ویں نمبر پر کیا جاتا ہے، اسی طرح سبزیوں کی پیداوار میں بھی اس کا نمبر دنیا میں تیسرا ہونے کے باوجود برآمدات میں اس کا درجہ محض 14 واں ہے۔ یہی سلسلہ پھلوں میں بھی ہے، جہاں دنیا میں پھلوں کی پیداوار میں بھارت کا دوسرا درجہ ہے لیکن بر آمدات میں اس کا درجہ 23 واں ہے۔ زراعت میں چوٹی کے برآمدکار ملکوں میں شامل ہونے کے لیے اس بات کی واضح ضرورت ہے کہ پہلے سے سرگرم ہوا جائے۔
اس کے پیش نظر ڈی اے سی اینڈ ایف ڈبلیو نے زرعی تجارت کے فروغ کے تئیں ایک جامع لائحہ عمل اور حکمت عملی تیار کی ہے۔ پیداوار سے پہلے، پیداوار کے دوران اور فصل کے بعد سے متعلق اعداد وشمار اور معاملات کو تفصیل سے جاننے کا کام شروع کیا گیا ہے تاکہ ایک مجموعی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے شروع سے آخر تک کا ایک طریقہ کار تشکیل دیا جائے۔
بر آمدات سے متعلق حکمت عملی میں تندرستی سے متعلق خوراک؍ صحت کا خیال رکھتے ہوئے استعمال کی جانے والی خوراک؍ تغذیہ بخش غذاؤں کی تیزی سے ترقی کرنے والی مارکیٹ کے بر آمداتی فروغ پرتوجہ دی گئی ہے۔ برانڈ انڈیا کو ایک مہم کے انداز میں فروغ دینا تاکہ نئی غیر ملکی مارکیٹ میں داخل ہونے میں مدد ملے، نیز نئی مصنوعات کی تجارت کا موقع ملے؛ مارکیٹ میں اپنی موجودگی میں اضافہ کرنے کے لیے خلیجی ملکوں کی نشان دہی کی گئی ہے، جو بھارت کے لیے ایک مضبوط منڈی ہے۔