چندی گڑھ / نئی دہلی: دہلی چلو کی کال پر ہزاروں کسان اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں اور دیگر گاڑیوں کے ساتھ قومی دارالحکومت دہلی پہنچ گئے ہیں۔ کسانوں نے ستمبر میں بھی مرکزی زرعی قوانین کی مخالفت کی تھی۔
ہفتہ کی صبح تک یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ آیا وہ شہر کے نواح میں واقع بوراری میدان جانے پر راضی ہوں گے یا نہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کسان اس گراؤنڈ میں اپنا احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں۔ بہت سے مظاہرین دہلی میں احتجاج کے لیے اچھی جگہ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اصل میں یہ مظاہرہ 26 اور 27 نومبر کو ہونا تھا۔
اب تک کے مظاہرہ پر ایک نظر
پہلا دن: پنجاب سے ہزاروں کسان جمعرات کو ہریانہ پہنچے۔ سرحدی علاقوں میں ہریانہ پولیس نے پانی کے چھڑکاؤ اور آنسو گیس کا استعمال کرکے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن بعد میں انہیں آگے بڑھنے دیا گیا۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست ہریانہ سے گزرتے ہوئے شاہراہوں میں متعدد مقامات پر کسانوں اور پولیس کے درمیان چھڑپیں بھی ہوئی۔ پانی پت کے قریب مظاہرین کے ایک بڑے گروپ نے رات میں پڑاؤ ڈالا۔
دوسرا دن: مظاہرین دہلی بارڈر پر ٹکڑی اور سنگھو میں جمع ہوئے۔ پولیس نے پانی کا چھڑکاؤ اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ پولیس نے بیریکڈ کے طور پر بالو سے بھرے ٹرک کھڑے کیے تھے۔ شام کو انہیں شہر میں داخل ہونے اور براری میدان میں احتجاج جاری رکھنے کی پیش کش کی گئی۔
تیسرے دن: دہلی کی سرحد پر ہفتہ کے روز تعطل جاری رہا۔ پنجاب اور ہریانہ سے مزید کسانوں نے شرکت کی۔
کسانوں کو ڈر: پنجاب اور ہریانہ کے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ مرکز کے ذریعہ حال ہی میں نافذ کیے گئے قوانین کے ذریعہ مینیم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) نظام تباہ ہوجائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ طویل عرصے میں بڑے کارپوریٹ ہاؤس اپنی مرضی سے کام کریں گے اور کسانوں کو ان کی پیداوار کی قیمتیں کم ملیں گی۔ کسانوں کو خوف ہے کہ نئے قوانین کی وجہ سے منڈی سسٹم ختم ہوجائے گا، انہیں اپنی فصلوں کی مناسب قیمت نہیں مل پائے گی۔
کسانوں کے مطالبات: اہم مطالبہ یہ ہے کہ ان تینوں قوانین کو واپس لیا جائے، مزید یہ قوانین فصلوں کی خرید و فروخت نظام کو ختم کر دیگا۔ کسان تنظیم ایم پی ایس نظام کو بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں'۔
کسان مجوزہ بجلی (ترمیمی) بل 2020 کو واپس لینے پر بھی زور دے رہے ہیں۔
کسانوں سے دہلی چلو کی کال آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی نے کیا اور راشٹریہ کسان مہا سنگھ سمیت بھارتی کسان یونین( بی کے یو) کے مختلف گروپوں نے اس کال کی حمایت کی۔
مزید پڑھیں:کسانوں کے احتجاج کی دس بڑی باتیں
یہ مارچ متحدہ کسان مورچہ کے زیراہتمام ہورہا ہے۔ اس محاذ میں قومی کسان مہاسنگٹھن، جئے کسان آندولن، آل انڈیا کسان مزدور سبھا، انقلابی کسان یونین، بھارتیہ کسان یونین، بی کے یو (راجیوال)، بی کے یو (ایکٹا-اُگڑھن)، بی کے یو (چڈونی) شامل ہیں۔
بیشتر مظاہرین کا تعلق پنجاب سے ہے لیکن کسانوں کی ایک بڑی تعداد ہریانہ سے بھی آئی ہے۔ دہلی چلو مظاہرے کے لیے اتر پردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ سے بھی حمایت حاصل ہے۔
ابتدائی مظاہرے: دہلی چلو سے پہلے پنجاب اور ہریانہ میں مختلف مظاہروں میں کسانوں نے دھرنا دیا اور سڑکیں بند کردی۔ تب پنجاب کی کسان تنظیموں نے ریل روکو تحریک چلانے کا فیصلہ کیا جو تقریباً دو ماہ تک جاری رہا۔ اس کے نتیجے میں پنجاب میں ٹرینیں خدمات معطل رہی۔ تھرمل پاور پلانٹس میں کوئلے کی کمی ہوگئی۔ ایک وقت تو تنظیموں نے مال بردار ٹرینوں کو گزرنے کی اجازت دینے کے لیے احتجاج میں نرمی کی۔
کسانوں کو ایم ایس پی نظام ختم ہونے کا ڈر ہے جن قوانی پر کسان احتجاج کرر ہے ہیں وہ کسانوں کی پیداوار کے کاروبار اور تجارت (فروغ اور سہل کاری) بل 2020' اور 'کسان (تفویض اختیار اور تحفظ) کو قیمت کی یقین دہانی اور زراعتی خدمات کا معاہدہ بل، 2020 اور اشیاء ضروریہ ترمیمی ایکٹ 2020 شامل ہے۔
مزید پڑھیں:'صرف ایم ایس پی پر وعدے نہیں، کسان تمام فصلوں پر گارنٹی چاہتے ہیں'
کانگریس کے زیر اقتدار پنجاب اسمبلی نے ریاست میں ان قوانین کو غیر موثر بنانے کے لیے بل منظور کرلیے ہیں لیکن پنجاب کے یہ بل گورنر کی منظوری کے منتظر ہیں۔
مرکز میں نریندر مودی حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کی مدد سے کسانوں کو اپنی فصلیں بیچنے کے لیے مزید اختیارات اور اچھی قیمتیں ملیں گی۔ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایم ایس پی سسٹم کے خاتمے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے اور نئے قوانین میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
دہلی چلو تحریک کے آغاز سے پہلے مرکز نے 3 دسمبر کو مرکزی وزیر زراعت نریندر تومر سے ملاقات کے لیے 30 سے زائد کسان تنظیموں کے نمائندوں کو مدعو کیا ہے۔ اس سے قبل 15 نومبر کو ہونے والا اجلاس غیر نتیجہ خیز ثابت ہوا۔