امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایران کا وجود مٹانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ایران اور امریکہ کے رشتوں میں جو تلخی آئی ہے اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ کسی بھی وقت ایران پر حملہ ہوسکتا ہے۔
ایران اس سے قبل سنہ 1980 میں ایک جنگ کا سامنا کرچکا ہے۔ اس جنگ میں 10 لاکھ ایرانی مارے گئے تھے۔یہ ایران اور عراق کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔
عراق نے 22 ستمبر سنہ 1980 کو ایران پر حملہ کیا تھا۔ جس سے دونوں ملکوں کےدرمیان دشمنی آٹھ سالوں تک جاری رہی۔ اسی دشمنی نے صرف مشرقی وسطی علاقےکو غیر مستحکم کیا بلکہ دونوں ملکوں کا بڑا نقصان بھی ہوا۔
یہ جنگ 20 اگست سنہ 1988 کو ختم ہوئی اس وقت عراق کے صدر صدام حسین نے حملے کی وجہ شت العرب نہر مسئلہ بتایا تھا جو دونوں ملکوں کے درمیان حد قائم کرتی تھی۔
تنازعہ کا اصل مسئلہ علاقائی تنازعہ تھا۔ صدام حسین کو دراصل ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب سے خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ اصل میں آیت اللہ خمینی 1979 ء میں اسلامی انقلاب کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے۔
خمینی صدام حسین کو ایک ایساسخت گیر سنی حکمراں مانتے تھے جو اپنے ملک کے شیعہ لوگوں کا استحصال کررہے تھے۔ آیت اللہ خمینی نے صدام حسین کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے اپنی خواہش کو نہیں چھپایا۔
صدام حسین کو لگا کہ اس سے قبل کہ آیت اللہ خمینی کی حکومت ان کے لیے خطرہ بن جائےوہ خمینی کی حکومت کا تختہ پلٹ دیں۔
آیت اللہ خمینی کی حکومت بھلے ہی یہودیوں کی مخالفت کرتی تھی لیکن اس لڑائی میں اسرائیل نے ایران کا ساتھ دیا تھا۔ ایران اور عراق کے درمیان جیسے جیسے لڑائی تیز ہوتی گئی اسرائیل نے بغداد کے پاس ایک نیو کلیئر ریکٹر پر 7 جون سنہ 1981 کو بمباری کردی۔
70 کی دہائی میں عراق نے فرانس کے ایک ایسے ایٹمی ریکٹر خریدنے کی کوشش کی تھی جس سے ملتے جلتے ایک ریکٹر کا استعمال فرانس نے اپنے تجربے میں کیا تھا۔ فرانس نے اس سے انکار کردیا لیکن بغداد کے پاس توائتھا نیو کلیئر سینٹر میں 40 میگاواٹ کا ایک ریسرچ ریکٹر بنانے میں مدد دینے پر رضا مندی دی تھی۔
اسرائیل کا کہنا تھا کہ عراق جوہری ہتھیار تیار کررہا ہے اور وہ اس پر کبھی بھی حملہ کرسکتا ہے۔ اس خدشے کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے وزیر اعظم میناکوم بیجن نے اوسیرک ریکٹر پر بمباری کرنے کے لیے کئی ایف 16 ہوائی جہاز بھیج دیا۔
بمباری شروع ہونے کے چند ہی لمحے کے اندر یہ سینٹر ملبے میں بدل گیا۔ اس وقت اسرائیل کی فوج نے یہ کہا تھا کہ بمباری سے عراق کا جوہری جن واپس بوتل میں بند ہوگیا ہے۔ لیکن اس حملے کی بین لااقوامی سطح پر مذمت ہوئی۔ یہاں تک کہ امریکہ نے بھی اسرائیل پر مذمت کرنے والے اقوام متحدہ کی تجویز کی حمایت کی تھی۔
صدام حسین کا ماننا تھا کہ ایران اس وقت عدم استحکام سے گزرہا تھا اور عراقی فوجیوں کی جیت حاصل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ لیکن صورتحال کا اندازہ لگانا دراصل ایک غلطی تھی۔
سنہ 1982 تک آتے آتے ایرانی فوجیوں نے اس علاقے پر اپنے قبضے میں لے لیا تھا جس پر ایرانی فوجیوں نے قبضہ کیا تھا۔ اتنا ہی نہیں ایرانی فوجی عراق کے کافی اندر تک گھس گئے تھے۔ تب تک اعراق نے جنگ بندی کی پیشکش کی تھی جسے ایران نے نامنظور کردیا تھا۔ اس طرح جنگ شروع تو عراق نے کیا تھا لیکن اسے لمبا کھینچنے کا فیصلہ ایرانی رہنما آیت اللہ خمینی نے کیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ جنگ ایک طرح سے ناک کی لڑائی میں تبدیل ہوگئی تھی اور دونوں ہی ممالک اس جنگ میں ضائع ہونے والی انسانی قیمت کو نظر انداز کر رہے تھے۔
خمینی نے ہزاروں ایرانی نوجوانوں کو انسانی حملوں کی حکمت عملی کے تحت لڑائی کے میدان میں بھیجا اور وہ مارے گئے۔ صدام حسین نے ایرانیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ صدام حسین نے ایران کے خلاف جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرکے جینیوا کنویشن کے خلاف ورزی کی ہے۔
یہ بات ظاہر ہوچکی تھی کہ عراق سنہ 1983 سے مسٹرڈ گیس اور سنہ 1985 سے نرو گیس تابون کا استعمال کررہا ہے۔ تابون وہ چیز ہے تھی جو منٹوں میں کئی لوگوں کی جان لے سکتی تھی۔
سنہ 1988 میں عراق نے اپنی ہی زمین پر ملک کے شمالی علاقوں میں کردوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔ اس حادثےکے بعد کرد چھاپہ مار کر جنگجو ایران کے حملہ آور فوج کے ساتھ جڑنے لگے تھے۔
16 مارچ 1988 کو عراق نے کرد بہول شہر ہلبجا پر ماسٹرڈ گیس سرین اور تابون والے کیمیائی ہتھیاروں سے بمباری کی اس حملے میں ہزاروں عام لوگوں مارے گئے۔
عراق کے انفال حملے میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس حملے میں کرد بہول علاقوں سے 50،000 تا 100،000 لوگ یا تو مارے گئے تھے یا پھر غائب ہوگئے۔ لڑائی میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عراق کی مذمت 1986 میں کی تھی لیکن اس کے باوجود امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک جنگ ختم ہونے تک بغداد کا ساتھ دیتے رہے۔