دراصل مغربی ممالک میں اس کی شروعات ہوئی جن میں ایران قابل ذکر ہے۔ 2015 کا واقعہ تھا جب ایران اقتصادی بحران کا سامنا تھا اور اس طرح بہت سے منفی اثرات کے باعث بہت سے لوگ کپڑے خریدنے سے قاصر تھے۔
اس طرح کا خیال چند ماہ قبل کشمیر میں بھی آیا اور کئی غیر رضاکارنہ تنظیم اور کئی اضلاع میں مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت دیواروں پر وال آف کائنڈنیس لکھ دیا اور اس طرح کی سوچ کشمیر میں ابھر کر سامنے آئی۔
بائٹ:
اس مہم کا مقصد تھا کہ لوگ آپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کے کام آئے گے لیکن اب اس سوچ کا اثر منفی اثرات میں بدل گیا۔
بائٹ:
ضلح کولگام اس کی بہترین مثال ہے یہاں کی دیواروں پر کپڑے تو رکھے گیے ہیں لیکن ان کپڑوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جو دیوار پر کپڑے رکھے گئے ہیں وہ پھٹے پرانے ہیں اور کسی کام کے نہیں ہیں۔