خواجہ سرا پیدائش سے لے کر موت تک جن مشکلات اور مصائب سے گزرتا ہے اس کا اندازہ لگانے اور اس کا سامنا کرنے کو ہمارا سماج تیار نہیں ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4137 کے قریب درج ہے تاہم آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔
خواجہ سراؤں کےلئے نہ صرف دو وقت کی روزی روٹی جٹا پانا مشکل ہو رہا ہے بلکہ روزمرہ کے باقی معملات کے تئیں بھی انہیں کئ سارے مشکلات کا سامناہے نہ تو انہیں ابھی تک اپنے تیسرے جسن ہونے کے بنیادی حقوق ہی فراہم کئے جارہے ہیں اور نہ ہی سرکاری کی جانب سے سماج کے اس طبقے کو کسی قسم کی سہولت یا مراعات ہی میسر ہے۔
ایک جانب خواہ سرا شادی بیاہ کی تقاریب پر ناچ گانے یا لڑکے لڑکیوں کے رشتہ انجام دینے کے کام سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔تاہم دور جدید کے چلن سے اب ان کا کام بھی لگ بھگ بند ہوگیا ہے جس وجہ سے یہ مزید تذبذب کے شکار ہیں۔
دوسری جانب ستم ظریفی یہ کہ 2014 میں عدالت عظمی نے ایک فیصلے کے تحت تیسرے جنس کے بطور درجہ دیا تو ہے مگر ریاست جموں و کشمیرمیں اس فیصلے کی رو سے بھی انہیں کوئی شناخت نہیں مل رہی ہے۔