اردو

urdu

ETV Bharat / briefs

شہریارکی شاعری شائقین ادب کے دلوں کی مہمان ہے - شاعر

شہر یار کو بہترین کھیلاڑی بننے کی خواہش تھی، لیکن مشہور شاعر خلیل الرحمٰن کی رفاقت نے انہیں شاعر بنادیا۔

گیان پیٹھ ایوار یافتہ مشہور شاعر شہر یار کی آج یوم پیدائش ہے

By

Published : Jun 17, 2019, 12:06 PM IST

انہوں نے کہا تھا کہ 'آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے، یا سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے'، کے خالق گیان پیٹھ ایوار یافتہ مشہور شاعر شہر یار کی آج یوم پیدائش ہے۔

اردو کے مشہور و مقبول شاعر جناب شہر یار کی آج یوم پیدائش ہے، جو سات برس پہلے ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے، لیکن ان کی شاعری آج بھی شائقین ادب کے دلوں کی مہمان ہے۔

شہر یار کو متعدد بڑے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا، جس میں ادب کا سب سے اعلیٰ بھارتی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ بھی شامل ہے

شہر یار 17 جون سنہ 1936کو اتر پردیش میں ضلع بریلی کے ایک چھوٹ سے گاؤں آنولہ، میں پیدا ہُوئے، ابتدائی تعلیم ہردوئی میں حاصل کی، اور سنی 1948 میں علی گڑھ آگئے۔

سنہ 1961 میں انہوں نے اردو میں ایم اے کیا، سنہ 1966میں شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بطور لیکچرر منتخب ہوئے، اور سنہ 1996میں یہیں سے پروفیسر اور صدر اردو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔

واضح رہے کہ کنور محمد اخلاق کو دنیائے ادب میں شہر یار کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان کا یہ شعر کہ

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اِس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے

دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے

خیال رہے کہ شہر یار کو ہاکی، بیڈمنٹن اور رمی کھیلنا پسند کرتے تھے، جبکہ وہ اپنی شراب نوشی کے لیے بھی خوب مشہور تھے۔

شہر یار نے اپنے سب سے قریبی رفیق خلیل الرحمن اعظمی سے قربت کے بعد شاعری شروع کی، اور اوج سریا پر کمندے ڈالے۔جبکہ شہر یار نے شاذ تمکنت کے مشورے پر اپنا نام کنور محمد اخلاق سے تبدیل کر شہر یار رکھا۔

شہر یار کو بہترین کھیلاڑی بننے کی خواہش تھی، لیکن مشہور شاعر خلیل الرحمٰن کی رفاقت نے انہیں شاعر بنادیا۔

شہر یار انجمن ترقی اردو (ہند) علی گڑھ میں لٹریری اسسٹنٹ بھی رہے اور انجمن کے رسائل اردو ادب اور ہماری زبان کی ادارت کی۔

بالی وڈ کے معرو ہدایت کار سکرین پلے رائٹر مظفر علی نے جب اپنی پہلی فیچر فلم 'دمن' بنائی اور شہر یار کی دو غزلوں کو اپنی فلم کا حصہ بنایا تو وہاں سے ان کی زندگی میں ایک نیا انقلاب آگیا۔

واضح رہے کہ شہر یار کی ہی چار غزلوں نے فلم 'امراؤں جان' ایسا کارنامہ انجام دیا کہ وہ پوری دنیا میں مشہور ہوگئے، اس کے بعد فلم 'انجمن' کے نغمے بھی انہوں نے ہی لکھے۔

اتنا ہی نہیں معروف ہدایت کار یش چوپڑہ نے بھی شہر یار سے نغمے لکھوائے، جس کی مقبولیت کے بعد چوپڑہ تین مزید فلوں کے لیے نغمے لکھوانا چاہتے تھے، لیکن شہر یار نے انہیں یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ وہ گیتوں کی دکان نہیں بننا چاہتے۔

شہر یار کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے دوست مظفر علی کے کہنے پر فلموں میں نغے لکھے تھے۔

سنہ 1961 میں انہوں نے اردو میں ایم اے کیا، سنہ 1966میں شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بطور لیکچرر منتخب ہوئے

سنہ 1965 میں شہر یار کا پہلا مجموعہ 'اسم اعظم' کے نام سے شائع ہوا، جبکہ 'ساتواں در، ہجر کے موسم، اور خواب کے در بند ہیں' کے نام سے شعری مجموعے منظرعام پر آئے، حالانکہ شہر یار کا تمام کلام 'سورج کو نکلتا دیکھوں' کے نام سے شائع ہوا۔

شہر یار کو متعدد بڑے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا، جس میں ادب کا سب سے اعلیٰ بھارتی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ بھی شامل ہے، جبکہ اردو ادب میں محض فراق گورکھپوری، علی سردار جعفری، اور قرۃ العین کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے۔

واضح رہے کہ شہر یار کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی، جرمن، روسی،مراٹھی، بنگالی اور تیلگو میں ہوچکا ہے۔

بے بہا صلاحیتوں کے مالک پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہوگئے اور آخر کار 13 فرروری سنہ 2012 کو ہمیشہ ہمیش کے لیے ہن سے جدا ہوگئے۔

امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے

ABOUT THE AUTHOR

...view details