اردو

urdu

ETV Bharat / briefs

سہسرام میں میرا کمار اور چھیدی پاسوان میں راست ٹکر

بہار میں اس بار کے لوک سبھا انتخابات میں ساتویں اور آخری مرحلے میں سہسرام سیٹ پر لوک سبھا کی سابق اسپیکر اور کانگریس امیدوار میرا کمار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار چھیدی پاسوان کے درمیان سیدھی ٹکر ہوگی۔

سہسرام میں میرا کمار اور چھیدی پاسوان میں راست ٹکر

By

Published : May 18, 2019, 9:53 PM IST


بہار میں ساتویں اور آخری مرحلے کے لئے 19 مئی کو سہسرام (مختص) میں ووٹنگ ہونی ہے۔ سہسرام پارلیمانی حلقے کی شناخت سابق نائب وزیراعظم آنجہانی جگ جيون رام کی کرم بھومی کے طور پر ہوتی ہے، جنہیں لوگ آج بھی بابوجی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

سہسرام میں میرا کمار اور چھیدی پاسوان میں راست ٹکر

جگ جیون رام سنہ 1952 سے لے کر 1984 تک آٹھ بار یہاں سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ سہسرام کانگریس کی روایتی نشست رہی ہے۔ جگ جیون بابو کی وراثت اب ان کی بیٹی میرا کمار سنبھال رہی ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقے وارانسی کی سرحد سے متصل سہسرام پارلیمانی سیٹ پر اس بار سیاسی لڑائی کافی دلچسپ ہوگی۔ کانگریس کی ٹکٹ پر جگ جیون رام کی بیٹی میرا کمارکو امیدوار بنایا گیا ہیں وہیں بی جے پی کے ٹکٹ پر موجودہ رکن پارلیمنٹ چھیدی پاسوان انتخابی میدان جنگ میں تال ٹھونک رہے ہیں۔

اس بار کے انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی دونوں پارٹی کے امیدوار اپنی جیت کا دعوی کر رہے ہیں۔ کانگریس امیدوار میرا کمار سہسرام نے ماضی میں کئے گئے کام کو بنیاد بنا کر جبکہ بی جے پی امیدوار چھیدي پاسوان وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے ملک میں کئے گئے ترقیاتی کاموں کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔

اس سیٹ پر جہاں میرا کمار کے سامنے اپنے باپ بابو جگ جیون رام کی وراثت بچانے کا چیلنج ہے، تو وہیں بی جے پی امیدوار چھیدي پاسوان کے سامنے اس علاقے سے چوتھی بار جیت درج کرنے کا چیلنج ہے۔

سہسرام کی تاریخی شناخت ہے۔ یہ ضلع روہتاس ضلع کا ہیڈکوارٹر ہے. افغانی حکمران شیر شاہ سوری کا مقبرہ آج بھی یہاں ان یادوں کو سجوے ہوئے هے۔ ہندوستان -افغان اسٹائل میں سرخ بلوا پتھر سے بنامقبرہ جھیل کے وسط میں ہے۔ شیر شاہ کی جانب سے بنوایا گیا ملک کا مشہور گرانڈ ٹرنک روڈ اسی شہر سے ہوکر گزرتا ہے۔

یہیں پر ایک پہاڑی پر غار میں اشوک کا مختصر مخطوطات نمبر تعداد ایک کو واضح کیا گیا ہے۔اسی علاقے میں ایماندار بادشاہ ہریش چندر کا مسکن هےيها کی معیشت زراعت پر مبنی ہے۔ اسے چاول کا کٹورا بھی کہا جاتا ہے۔

سہسرام کو پہلے شاه آباد نام سے جانا جاتا تھا. یہاں سے جگ جیون رام مسلسل آٹھ بار جیتے. سال 1952 کے عام انتخابات میں جگ جیون رام نے شاه آباد (جنوبی) پارلیمانی سیٹ سے کانگریس کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی. اس کے بعد جگ جیون رام سہسرام پارلیمانی سیٹ سے سال 1957، 1962، 1967 اور 1971 میں بھی کانگریس کی ٹکٹ پر جیت حاصل کر پارلیمنٹ پہنچے۔

سال 1977 میں ایمرجنسی کے بعد جگ جیون رام نے اندرا گاندھی سے ناطہ توڑ لیا تھا اس وقت بھی سہسرام پارلیمانی حلقہ کے لوگ 'بابوجی' کے حق میں مضبوطی سے کھڑے تھے. جگ جیون رام نے بھارتیہ لوک دل ( بی ایل ڈي) کی ٹکٹ پر 1977 کا لوک سبھا چناؤ سہسرام پارلیمانی حلقہ سے لڑا اور مضبوطی کے ساتھ جیت درج کی۔

سنہ 1980 میں جگ جیون رام نے جنتا پارٹی اور سال 1984 میں انڈین کانگریس (جگ جیون) کے ٹکٹ پر الیکشن جيتابابو جگ جیون رام کے انتقال کے بعد جب سال 1989 کے عام انتخابات ہوئے تب کانگریس نے میرا کمار کو سہسرام پارلیمانی سیٹ سے پارٹی کا ٹکٹ دیا تھا تب لوگوں نے مان لیا تھا کہ سہسرام میں جگ جیون دور کی واپسی ہو جائے گی، لیکن اس تاثر کو چھیدي پاسوان نے پاش پاش کر دیا۔

جنتا دل کے امیدوار کے طور پر چھیدي پاسوان نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے میرا کمار کو شکست دی تھي ۔ 1991 کے عام انتخابات میں بھی جنتا دل امیدوار چھیدي پاسوان نے کانگریس امیدوار میرا کمار کو شکست دی۔

1996 کے انتخابات میں بی جے پی امیدوار اور سابق آئی اے ایس آفیسر مونی لال نے جنتا دل امیدوار چھیدي پاسوان کو شکست دے کر سہسرام پارلیمانی حلقہ میں پہلی بار بی جے پی کا کمل کھلایا۔ اس کے بعد سال 1998 اور سال 1999 کے انتخابات میں بھی بی جے پی کے منی لال منتخب ہوئے۔

سنہ 2004 اور سال 2009 کے انتخابات میں کانگریس امیدوار میرا کمار نے بی جے پی امیدوار مونی لال کو شکست دے دي ۔دو بار منی لال کے ہارنے کے بعد بی جے پی نے 2014 میں چھیدي پاسوان پر داؤ لگایا۔ چھیدي پاسوان نے میرا کمار کو سخت مقابلے میں 63327 ہزارووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی. جے ڈی یو امیدوار اور سابق آئی اے ایس آفیسر كےپي رميا تیسرے مقام پر رہے.

سہسرام محفوظ پارلیمانی حلقہ کے چھ اسمبلی حلقوں میں تین علاقے كےمور ضلع کے اور تین روہتاس ضلع کے ہیں. اس پارلیمانی حلقہ میں موہنیاں (ایس یو)، بھبھوا، چےنپر، چےناري (ایس یو)، سہسرام اور كرگهر اسمبلی حلقہ شامل ہیں. سال 2015 کے بہار اسمبلی انتخابات میں چھ میں سے تین سیٹ بی جے پی کے اکاؤنٹ میں گئی تھی۔ وہیں قومی لوک سمتا پارٹی (رالوسپا)، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور جنتا دل متحد (جے ڈی یو) امیدوار ایک ایک سیٹ پر جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔

بھبھوا اسمبلی حلقہ سے بی جے پی ممبر اسمبلی رہے آنند بھوشن پانڈے کا انتقال ہو گیا ہے. ضمنی انتخابات میں ان کی اہلیہ رنکی رانی پانڈے بی جے پی کی ٹکٹ پر الیکشن جیتیں ۔ چین پور سے ورج کشوربند (بی جے پی)، چناري (ایس یو) سے للن پاسوان (رالوسپا)، سہسرام سے اشوک کمار (آر جے ڈی)، موہنیاں (ایس یو) سے نرنجن رام ( بی جے پی) اور كرگهر سے وششٹھ سنگھ (جے ڈی یو) رکن اسمبلی ہیں۔

سترهویں لوک انتخابات (2019) میں سہسرام سے کل 13 امیدوار قسمت آزما رہے ہیں. ان میں بی جے پی، کانگریس، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)، اور چھ آزاد امیدوار سمیت 13 امیدوار شامل ہیں۔ اس لوک سبھا علاقے میں تقریباً 17 لاکھ 72 ہزار ووٹر ہیں۔ ان میں تقریبا نو لاکھ 28 ہزار مرد اور آٹھ لاکھ 44 ہزار خواتین شامل هیں سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس الیکشن میں مهاگٹھ بندھن کی امیدوار میرا کمار اور قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) امیدوار چھیدي پاسوان کے درمیان براہ راست مقابلہ ہے۔

میرا کمار کو اس بار راشٹریہ جنتا دل، ہندوستانی عوام مورچہ، قومی لوک سمتا پارٹی سمیت کئی چھوٹی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے، جبکہ جے ڈی یو اس بار کے انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ ہے۔ رالوسپا گزشتہ انتخابات میں این ڈی اے کے ساتھ تھی، لیکن اس وقت وہ مهاگٹھ بندھن کے ساتھ ہے۔

اس علاقے میں درگاوتي آبی ذخائر منصوبے کا سنگ بنیاد سابق مرکزی کابینہ وزیر جگ جیون رام نے 1976 میں کیا تھا۔ وہ منصوبہ مکمل نہیں ہو پایا تھا۔ اسے مکمل کراکر 2014 میں اس وقت کے وزیر اعلی جیتن مانجھی نے افتتاح کیا، اگرچہ اب بھی نہروں کا کام مکمل نہیں ہو پایا ہے۔

شیر شاہ انجینئرنگ کالج کا سنگ بنیاد اور کیندریہ ودیالیہ کی عمارت کی تعمیر ہوئی۔آرا ریل کا الیکٹری فکیشن ، دیہی سڑک،پینے کے پانی وغیرہ سے منسلک کام بھی ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں کئی طرح کے مسائل اب بھی برقرار ہیں، جن میں کسانوں کو پیداوار کا واجب دام دلانے، فوڈ پروسیسنگ صنعت، سیاحتی مقامات کے ترقیاتی ا وغیرہ اہم کام ہیں۔

منڈیشوری- آرا ریل لائن کی تعمیر بھی بڑا مسئلہ هے۔ روہتاس ضلع کے پڈكا گاؤں کی سون ندی پر پل کے تعمیر نہ ہونے کا درد علاقے کے لوگوں کو برسوں رہا ہے. تعلیم کے میدان میں ترقی نہیں ہونے سے اس علاقے کے لوگوں میں ناخوشی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ضلع میں ایک بھی سرکاری لیڈی کالج نہیں ہے۔ الحاقی کالجوں میں طالبات ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی حالت بھی بہت اچھی نہیں ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details