برما میں ان پر ڈھائے جانے والے مظالم میں ان کا کوئی نہ کوئی فرد لاپتہ یا پھر ہلاک ہوگیا ہے۔اس واقعےکے بعد وہ اپنی جان بچانے کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
روہنگیا پناہ گزینوں کی داستان سنہ2012 کے بعد میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے مسلسل مظالم کے باعث انہیں اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔اور وہ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔وہ لوگ بنگلہ دیش کے علاوہ بھارت میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
ان میں سے بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان حیدرآباد پہنچے جہاں حکومت کی جانب سے انہیں مضافات میں رہائش کا انتظام کیاگیا۔ وہ یہاں بغیر سہولیات کے زندگی گزربسر کرنے پر مجبور ہیں۔
حیدرآباد کے مضافات بالاپور میں رہائشی کیمپس میں زندگی بسر کرنے والے روہنگیا مسلمان نہایت غیرت مند ہیں وہ امداد کے لیے دنیا کے سامنے اپنی مجبوری اور حالات کو پیش کرنا نہیں چاہتے۔
روہنگیا مسلمان آج بھی ان کے ساتھ ہوئے پرتشدد واقعات کو نہیں بھول سکے ہیں۔ وہ آج بھی اس روز کو یاد کرکے رو پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے بچوں کی صحت اور تعلیم کے تعلق سے فکر مند ہے۔
ان پناہ گزیں کیمپس میں سینکڑوں بچے ہیں جن کی تعلیم کے لیے مناسب نظم نہیں ہے۔اور نہ ہی ان کے لیے اسکول ہے۔ اور نہ ہی علاج کے لیے دواخانے کی سہولت ہے۔بیماری کی صورت میں انہیں نیلوفر ہسپتال، آسرا دواخانہ یا اویسی ہسپتال سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔جہاں ان کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے۔
اگر ان میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو تدفین کے لیے انہیں دس یا پانچ ہزار روپے ادا کرنے پڑتے ہیں جس کے لیے انہیں قرض لینا پڑتا ہے۔ان مجبور اور بے بس روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک کے حالات کے ٹھیک ہونے کا انتظار ہیں۔تاکہ وہ اپنے ملک اور اپنوں میں واپس جاسکے۔